اس رکوع کو چھاپیں

سورة الفرقان حاشیہ نمبر١۲

 یہ وہی اعتراض ہے جو اس زمانے کے مستشرقین مغرب قرآن مجید کے خلاف پیش کرتے ہیں ۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ہم عصر دشمنوں میں سے کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ تم بچپن میں بحیرا راہب سے جب ملے تھے اس وقت یہ سارے مضامین تم نے سیکھ لیے تھے ۔ اور نہ یہ کہا کہ جوانی میں جن تجارتی سفروں کے سلسلے میں تم باہر جایا کرتے تھے اس زمانے میں تم نے عیسائی راہبوں اور یہودی ربّیوں سے یہ معلومات حاصل کی تھیں ۔ اس لیے کہ ان سارے سفروں کا حال ان کو معلوم تھا۔ یہ سفر اکیلے نہیں ہوئے تھے ، ان کے اپنے قافلوں کے ساتھ ہوئے تھے اور وہ جانتے تھے کہ ان میں کچھ سیکھ آنے کا الزام ہم لگائیں گے تو ہمارے اپنے ہی شہر میں سیکڑوں زبانیں ہم کو جھٹلا دیں گی۔ اس کے علاوہ مکے کا ہر عام آدمی پوچھے گا کہ اگر یہ معلومات اس شخص کو بارہ تیرہ برس کی عمر ہی میں بحیر اسے حاصل ہو گئی تھیں ، یا 25 برس کی عمر سے ، جب کہ اس نے تجارتی سفر شروع کیے تھے ، حاصل ہونی شروع ہو گئی تھیں ، تو آخر یہ شخص کہیں باہر تو نہیں رہتا تھا، ہمارے ہی درمیان رہتا بستا تھا، کیا وجہ ہے کہ چالیس برس کی عمر تک اس کا یہ سارا علم چھپا رہا اور کبھی ایک لفظ بھی اس کی زبان سے ایسا نہ نکلا جو اس علم کی غمازی کرتا؟ یہی وجہ ہے کہ  کفار مکہ نے اتنے سفید جھوٹ کی جرأت نہ کی اور اسے بعد کے زیادہ بے حیا لوگوں  کے لیے چھوڑ دیا ۔ وہ جو بات کہتے تھے وہ نبوت سے پہلے کے متعلق نہیں بلکہ دعوائے نبوت کے زمانے کے متعلق تھی ۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ یہ شخص ان پڑھ ہے ۔ خود مطالعہ کر کے نئی معلومات حاصل کر نہیں سکتا ۔ پہلے اس نے کچھ سیکھا نہ تھا۔ چالیس برس کی عمر تک ان باتوں میں سے کوئی بات بھی نہ جانتا تھا جو آج اس کی زبان سے نکل رہی ہیں ۔ اب آخر یہ معلومات آ کہاں ے رہی ہیں ؟ ان کا سرچشمہ لامحالہ کچھ اگلے لوگوں کی کتابیں ہیں جن کے اقتباسات راتوں کو چپکے چپکے ترجمہ اور نقل کرائے جاتے ہیں ، انہیں کسی سے یہ شخص پڑھوا کر سنتا ہے ، اور پھر انہیں یاد کر کے ہمیں دن کو سنا تا ہے ۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سلسلے میں وہ چند آدمیوں کے نام بھی لیتے تھے جو اہل کتاب تھے ، پڑھے 6 لکھے تھے ، اور مکہ میں رہتے تھے ، یعنی عدّ اس (حُوَیطِب بن عبد العزّیٰ کا آزاد کر دہ غلام) یَسَار (علاء بن الحضرمی کا آزاد کردہ غلام) اور جَبرْ (عامر بن ربیعہ کا آزاد کر دہ غلام ) ۔
بہ ظاہر بڑا وزنی اعتراض معلوم ہوتا ہے ۔ وحی کے دعوے کو رد کرنے کے لیے نبی کے مآخذِ علم کی نشان دہی کر دینے سے بڑھ کر اور کونسا اعتراض وزنی ہو سکتا ہے ۔ مگر آدمی پہلی ہی نظر میں یہ دیکھ کر حیران ہو جاتا ہے کہ جواب میں سے کوئی دلیل پیش نہیں کی گئی، بلکہ صرف یہ کہہ کر بات ختم کر دی گئی کہ تم صداقت پر ظلم کر رہے ہو، صریح بے انصافی کی بات کہہ رہے ہو، سخت جھوٹ کا طوفان اُٹھا رہے ہو، یہ تو اس خدا کا کلام ہے جو آسمان و زمین کا بھید جانتا ہے ۔ کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ سخت مخالفت کے ماحول میں ایسا زوردار اعتراض پیش کیا جائے اور اس کو یوں حقارت سے رد کر دیا جائے ؟ کیا واقعی یہ ایسا ہی پوچ اور بے وزن اعتراض تھا ، کہ اس کے جواب میں بس ’’جھوٹ اور ظلم‘‘ کہہ دینا کافی تھا؟ آخر وجہ کیا ہے کہ اس مختصر سے جواب کے بعد نہ عوام نے کسی تفصیلی اور واضح جواب کا مطالبہ کیا، نہ نئے نئے ایمان لانے والوں کے دلوں میں کوئی شک پیدا ہوا، اور نہ مخالفین ہی میں سے کسی کو یہ کہنے کی ہمت ہوئی کہ دیکھو، ہمارے اس وزنی اعتراض کا جواب بن نہیں پڑ رہا ہے اور محض جھوٹ اور ظلم کہہ کر بات ٹالی جا رہی ہے ؟۔
اس گتھی کا حل ہمیں اسی ماحول سے مل جاتا ہے جس میں مخالفین اسلام نے یہ اعتراض کیا تھا:
پہلی بات یہ تھی کہ مکے کے وہ ظالم سردار جو ایک ایک مسلمان کو مارتے کوٹتے اور تنگ کرتے پھر رہے تھے ، ان کے لیے یہ بات کچھ بھی مشکل نہ تھی کہ جن جن لوگوں کے متعلق وہ کہتے تھے کہ یہ پرانی پرانی کتابوں کے ترجمے کر کر کے محمدؐ کو یاد کرایا کرتے ہیں ، ان کے گھروں پر اور خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے گھر پر چھاپے مارتے اور وہ سارا ذخیرہ برآمد کر کے پبلک کے سامنے لا رکھتے جو ان کے زعم میں اس کام کے لیے فراہم کیا گیا تھا۔ وہ عین اس وقت چھاپا مار سکتے تھے جب کہ یہ کام کیا جا رہا ہو اور ایک مجمع کو دکھا سکتے تھے کہ لو دیکھو، یہ نبوت کی تیاریاں ہو رہی ہیں ۔ بلالؓ کو تپتی ہوئی ریت پر گھسیٹنے والوں کے لیے ایسا کرنے میں کوئی آئین و ضابطہ مانع نہ تھا، اور ایسا کر کے وہ ہمیشہ کے لیے نبوت محمدی کے خطرے کو مٹا سکتے تھے ۔ مگر وہ بس زبانی اعتراض ہی کرتے رہے اور ایک دن بھی یہ فیصلہ کن قدم اٹھا کر انہوں نے نہ دکھایا ۔
دوسری بات یہ تھی کہ اس سلسلے میں وہ جن لوگوں کے نام لیتے تھے وہ کہیں باہر کے نہ تھے ، اسی شہر مکہ کے رہنے والے تھے ۔ ان کی قابلیتیں کسی سے چھپی ہوئی نہ تھیں ۔ ہر شخص جو تھوڑی سی عقل بھی رکھتا تھا، یہ دیکھ سکتا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم جو چیز پیش کر رہے ہیں وہ کس پائے کی ہے ، کس شان کی زبان ہے ، کس مرتبے کا ادب ہے ، کیا زور کلام ہے ، کیسے بلند خیالات اور مضامین ہیں ، اور وہ کس درجے کے لوگ ہیں جن کے متعلق کہا جاتا  ہے کہ محمدؐ ان سے یہ سب کچھ حاصل کر کر کے لا رہے ہیں ۔ اسی وجہ سے کسی نے بھی اس اعتراض کو کوئی وزن نہ دیا ۔ ہر شخص سمجھتا تھا کہ ان باتوں سے بس دل کے جلے پھپھولے پھوڑے جا رہے ہیں اور نہ اس قول میں کسی شبہ کے قابل بھی جان نہیں ہے ۔ جو لوگ ان اشخاص سے واقف نہ تھے وہ بھی آخر اتنی ذرا سی بات تو سوچ سکتے کہ اگر یہ لوگ ایسی ہی قابلیت رکھتے تھے تو آخر انہوں نے خود اپنا چراغ کیوں نہ جلایا؟ ایک دوسرے شخص کے چراغ کو تیل مہیا کرنے کی انہیں ضرورت کیا پڑی تھی؟ اور وہ بھی چپکے چپکے کہ اس کام کی شہرت کا ذرا سا حصہ بھی ان کو نہ ملے ؟
تیسری بات یہ تھی کہ وہ سب اشخاص ، جن کا اس سلسلے میں نام لیا جا رہا تھا، بیرونی ممالک سے آئے ہوئے غلام تھے جن کو ان کے مالکوں نے آزاد کر دیا تھا۔ عرب کی قبائلی زندگی میں کوئی شخص بھی کسی طاقت ور قبیلے کی حمایت کے بغیر نہ جی سکتا تھا۔ آزاد ہو جانے پر بھی غلام اپنے سابق مالکوں کے سِلاء (سرپرستی) میں رہتے تھے اور ان کی حمایت ہی معاشرے میں ان کے لیے زندگی کا سہارا ہوتی تھی۔ اب یہ ظاہر بات تھی کہ اگر محمد صلی اللہ علیہ و سلم ان لوگوں کی بدولت ، معاذ اللہ، ایک جھوٹی نبوت کی دکان چلا رہے تھے تو یہ لوگ کسی خلوص اور نیک نیتی کے ساتھ تو اس سازش میں آپ کے شریک نہ ہو سکتے تھے ۔ آخر ایسے شخص کے وہ مخلص رفیق کار اور سچے عقیدت مند کیسے ہو سکتے تھے جو رات کو انہی سے کچھ باتیں سیکھتا ہو اور دن کو دنیا بھی کے سامنے یہ کہہ کر پیش کرتا ہو کہ یہ خدا کی طرف سے مجھ پر وحی نازل ہوئی ہے ۔ اس لیے ان کی شرکت کسی لالچ اور کسی غرض ہی کی بنا پر ہو سکتی تھی۔ مگر کون صاحب عقل و ہوش آدمی یہ باور کر سکتا تھا کہ یہ لوگ خود اپنے سر پرستوں کو ناراض کر کے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے قوم کی دشمنی کے ہدف آدمی کے ساتھ مل جاتے اور اپنے سرپرستوں سے کٹ جانے کے نقصان کو ایسے مصیبت زدہ آدمی سے حاصل ہونے والے کسی فائدے کی امید پر گوارا کر لیتے ؟ پھر یہ بھی سوچنے کی بات تھی کہ انکے سرپرستوں کو یہ موقع تو  آخر حاصل ہی تھا کہ مار کوٹ کر ان سے سازش کا اقبال کرا لیں ۔ اس موقع سے انہوں نے کیوں نہ فائدہ اٹھایا اور کیوں نہ ساری قوم کے سامنے خود انہی سے یہ اعتراف کروا لیا کہ ہم سے سیکھ سیکھ کر یہ نبوت کی دکان چمکائی جا رہی ہے ؟
سب سے عجیب بات یہ تھی کہ وہ سب محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لائے اور اس ضرب المثل عقیدت میں شامل ہوئے  جو صحابہ کرام آنحضورؐ  کی ذات مقدس سے رکھتے تھے ۔ کیا یہ ممکن ہے کہ بناؤٹی اور سازشی نبوت پر خود ہی لوگ ایمان لائیں اور گہری عقیدت کے ساتھ ایمان لائیں جنہوں نے اس کے نانے کی سازش میں کود حصہ لیا ہو؟ اور بالفرض اگر یہ ممکن بھی تھا تو ان لوگوں کو ہل ایمان کی جماعت میں کوئی نمایاں مرتبہ تو ملا ہوتا ۔ یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ نبوت کا کاروبار تو چلے عَدّاس اور یَسار اور جبر کے بل بوتے پر، اور نبی کے دست بنیں ابوبکر ور عمر اور ابو عبیدہ۔
اسی طرح یہ بات بھی بڑی تعجب انگیز تھی کہ اگر چند آدمیوں کی مدد سے راتوں کو بیٹھ بیٹھ کر نبوت کے اس کاروبار کا مواد تیار کیا جاتا تھا تو وہ زید بن حارثہ، علی بن ابی طالب، ابو بکر صدیق اور دوسرے ان لوگوں سے کس طرح چھپ سکتا تھا جو شب و روز محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ لگے رہتے تھے ؟ اس الزام میں برائے نام بھی شائبہ صداقت ہوتا تو کیسے ممکن تھا کہ یہ لوگ اس قدر خلوص کے ساتھ حضور پر ایمان لاتے اور آپ ہی نے وزن تھا۔ اس لیے قرآن میں اس کو کسی وزنی اعتراض کی حیثیت سے ، جواب دینے کی خاطر نقل نہیں کیا گیا ہے ، بلکہ یہ بتانے کی خاطر اس کا ذکر کیا گیا بلکہ یہ بتانے کی خاطر اس کا ذکر کیا گیا ہے کہ دیکھو، حق کی دشمنی میں یہ لوگ کیسے اندھے ہو گئے ہیں، اور کس قدر صریح جھوٹ اور بے انصافی پر اتر آئے ہیں ۔