اس رکوع کو چھاپیں

سورة النور حاشیہ نمبر۸

 اشارہ ہے اس الزام کی طرف جو حضرت عائشہ پر لگایا گیا تھا۔ اس کو افک کے لفظ سے تعبیر کرنا خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس الزام کی مکمل تردید ہے۔ اِفک کے  معنی ہیں بات کو الٹ دینا، حقیقت کے خلاف کچھ سے کچھ بنا دینا۔ اسی مفہوم کے اعتبار سے یہ لفظ قطعی جھوٹ اور افترا کے معنی میں بولا جاتا ہے۔ اور اگر کسی الزام کے لیے بولا جائے تواس کے معنی سراسر بہتان کے ہیں۔ '
یہاں سے اس واقعے پر کلام شروع ہوتا ہے جو اس سورے کے نزول کا اصل سبب تھا۔ دیباچے میں ہم اس کا ابتدائی قصہ خود حضرت عائشہ کی روایت سے نقل کر آئے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سخت اذیت میں مبتلا رہے۔ میں روتی رہی۔ میرے والدین انتہائی پریشانی اور رنج و غم میں مبتلا رہے۔ آخر کار ایک روز حضورؐ تشریف لائے اور میرے پاس بیٹھے۔ اس پوری مدت میں کبھی میرے پاس نہ بیٹھے تھے۔ حضرت ابو بکر اور ام رومان (حضرت عائشہ کی والدہ) نے محسوس کیا کہ آج کوئی فیصلہ کن بات ہونے والی ہے۔ اس لیے وہ دونوں بھی پاس آ کر بیٹھ گئے۔ حضور نے فرمایا عائشہ،مجھے تمہارے متعلق یہ خبریں پہنچی ہیں۔ اگر تم بے گناہ ہو تو امید ہے کہ اللہ تمہاری برأت ظاہر فرما دے گا۔ اور اگر واقعی تم کسی گناہ میں مبتلا ہوئی ہو تو اللہ سے توبہ کرو اور معافی مانگو، بندہ جب اپنے گناہ کا معترف ہو کر توبہ کرتا تو اللہ معاف کر دیتا ہے۔ یہ بات  سن کر میرے آنسو خشک ہو گئے۔ میں نے اپنے والد سے عرض کیا آپ رسول اللہ کی بات کا جواب دیں۔ انہوں نے فرمایا بیٹی، میری کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کہوں۔ میں نے اپنی والدہ سے کہا آپ ہی کچھ کہیں۔ انہوں نے بھی یہی کہا کہ میں حیران ہوں ، کیا کہوں۔ اس پر میں بولی آپ لوگوں کے کانوں میں ایک بات پڑ گئی ہے اور دلوں میں بیٹھ چکی ہے ، اب اگر میں کہوں کہ میں بے گناہ ہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اللہ گواہ ہے کہ میں بے گناہ ہوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو آپ لوگ نہ مانیں گے ، اور اگر خواہ مخواہ ایک ایسی بات کا اعتراف کروں جو میں نے نہیں کی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اللہ جانتا ہے کہ میں نے نہیں کی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو آپ لوگ مان لیں گے۔ میں نے اس وقت حضرت یعقوبؑ کا نام یاد کرنے کی کوشش کی مگر نہ یاد آیا۔ آخر میں نے کہا اس حالت میں میرے لیے اس کے سوا اور کیا چاہر ہے کہ وہی بات کہوں جو حضرت یوسفؑ کے والد نے کہی تھی فَصَبْرٌ جَمِیْل (اشارہ ہے اس واقعہ کی طرف جب کہ حضرت یعقوبؑ کے سامنے ان کے بیٹھے بن یمین پر چوری کا الزام بیان کیا گیا تھا۔ سور یوسف، رکوع 10 میں اس کا ذکر گزر چکا ہے ) یہ کہ ہ کر میں لیٹ گئی اور دوسری طرف کروٹ لے لی۔ میں اس وقت اپنے دل میں کہ ہ رہی تھی کہ اللہ میری بے گناہی سے واقف ہے اور وہ ضرور حقیقت کھول دے گا۔ اگرچہ یہ بات تو میرے وہم و گمان میں بھی  نہ تھی کہ میرے حق میں وحی نازل ہو گی جو قیامت تک پڑھی جائے گی۔ میں اپنی ہستی کو اس سے کم تر سمجھتی تھی کہ اللہ خود میری طرف سے بولے۔ مگر میرا یہ گمان تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کوئی خواب دیکھیں گے جس میں اللہ تعالیٰ میری برأت ظاہر فرما دے گا۔ اتنے میں یکایک حضورؐ پر وہ کیفیت طاری ہو گئی جو وحی نازل ہوتے وقت ہوا کرتی تھی ، حتیٰ کہ سخت جاڑے کے زمانے میں بھی موتی کی طرح آپ کے چہرے سے پسینے کے قطرے ٹپکنے لگتے تھے۔ ہم سب خاموش ہو گئے۔ میں تو بالکل نے خوف تھی۔ مگر میرے والدین کا حال یہ تھا کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ وہ ڈر رہے تھے کہ دیکھیے اللہ کیا حقیقت کھولتا ہے۔ جب وہ کیفیت دور ہوئی تو حضورؐ بے حد خوش تھے۔ آپ نے ہنستے ہوئے پہلی بات جو فرمائی وہ یہ تھی کہ مبارک ہو عائشہ ، اللہ نے تمہاری براءت نازل فرما دی۔ اور اس کے بعد حضورؐ نے دس آیتیں سنائیں (یعنی آیت نمبر 11 سے نمبر 21 تک)۔ میری والدہ نے کہا کہ اٹھو اور رسول اللہ کا شکریہ ادا کرو۔ میں نے کہا میں نہ ان کا شکریہ ادا کروں گی نہ آپ دونوں کا، بلکہ اللہ کا شکر کرتی ہوں جس نے میری براءت نازل فرمائی۔ آپ لوگوں نے تو اس بہتان کا انکار تک نہ کیا‘‘۔ (واضح رہے کہ یہ کسی ایک روایت کا ترجمہ نہیں ہے بلکہ حدیث اور سیرت کی کتابوں میں جتنی روایتیں حضرت عائشہ سے اس سلسلے میں مروی ہیں ان سب کو جمع کر کے ہم نے ان کا خلاصہ نکال لیا ہے )۔
اس موقع پر یہ نکتۂ  لطیف بھی سمجھ لینا چاہیے کہ حضرت عائشہ کی برأت بیان کرنے سے پہلے پورے ایک رکوع میں زنا اور قذف اور لعان کے احکام بیان کر کے اللہ تعالیٰ نے در اصل اس حقیقت پر متنبہ فرمایا ہے کہ زنا کے الزام کا معاملہ کوئی تفریحی مشغلہ نہیں ہے  جسے نُقل محفل کے طور پر استعمال کیا جائے۔ یہ ایک نہایت سنگین بات ہے۔ الزام لگانے والے کا الزام اگر سچا ہے تو ہو گواہی لائے۔ زانی اور زانیہ کو انتہائی ہولناک سزا دی جائے گی۔ اگر جھوٹا ہے تو الزام لگانے والا اس لائق ہے کہ اس کی پیٹھ پر 80 کوڑے برسا  دیے جائیں تاکہ آئندہ وہ یا کوئی اور ایسی جرأت نہ کرے۔ اور یہ الزام اگر شوہر لگائے تو عدالت میں لعان کر کے اسے معاملہ صاف کرنا ہو گا۔ اس بات کو زبان سے نکال کر کوئی شخص بھی خیریت سے بیٹھا نہیں رہ سکتا۔ اس لیے کہ یہ مسلم معاشرہ ہے جسے دنیا میں بھلائی قائم کرنے کے لیے بر پا کیا گیا ہے۔ اس میں نہ زنا ہی تفریح بن سکتی ہے اور نہ اس کے چرچے ہی خوش باشی اور دل لگی کے موضوع قرار پا سکتے ہیں۔