یہ آیات پچھلی آیات کے کچھ مدت بعد نازل ہوئی ہیں۔ حد قذف کا حکم جب نازل ہوا تو لوگوں میں یہ سوال پیدا ہو گیا کہ غیر مرد اور عورت کی بد چلنی دیکھ کر تو آدمی صبر کر سکتا ہے ، گواہ موجود نہ ہوں تو زبان پر قفل چڑھا لے اور معاملے کو نظر انداز کر دے۔ لیکن اگر وہ خود اپنی بیوی کی بد چلنی دیکھ لے تو کیا کرے ؟ قتل کر دے تو الٹا سزا کا مستوجب ہو۔ گواہ ڈھونڈنے جائے تو ان کے آنے تک مجرم کب ٹھیرا رہے گا۔ صبر کرے تو آخر کیسے کرے۔ طلاق دے کر عورت کو رخصت کر سکتا ہے ، مگر نہ اس عورت کو کسی قسم کی مادی یا اخلاقی سزا ملی نہ اس کے آشنا کو۔ اور اگر اسے ناجائز حمل ہو تو غیر کا بچہ الگ گلے پڑا۔ یہ سوال ابتداءً تو حضرت سعد بن عبادہ نے ایک فرضی سوال کی حیثیت میں پیش کیا اور یہاں تک کہ ہ دیا کہ میں اگر خدا نخواستہ اپنے گھر میں یہ معاملہ دکھوں تو گواہوں کی تلاش میں ہیں جاؤں گا بلکہ تلوار سے اسی وقت معاملہ طے کر دوں گا (بخاری و مسلم)۔ لیکن تھوڑی ہی مدت گزری تھی کہ بعض ایسے مقدمات عملاً پیش آ گئے جن میں شوہروں نے اپنی آنکھوں سے یہ معاملہ دیکھا اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس اس کی شکایت لے گئے۔ عبد اللہ بن مسعود اور ابن عمرؓ کی روایات ہیں کہ انصار میں سے ایک شخص (غالباً عویمیر عجلانی) نے حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ، اگر ایک شخص اپنی بیوی کے ساتھ غیر مرد کو پائے اور منہ سے بات نکالے تو آپ حد قذف جاری کر دیں گے ، قتل کر دے تو آپ اسے قتل کر دیں گے ، چپ رہے تو غیظ میں مبتلا رہے۔ آخر وہ کیا کرے ؟ اس پر حضورؐ نے دعا کی کہ خدایا، اس مسئلے کا فیصلہ فرما (مسلم ، بخاری، ابو داؤد ، احمد، نسائی)۔ ابن عباس کی روایات ہے کہ بالا بن امیہ نے آ کر اپنی بیوی کا معاملہ پیش کیا جسے انہوں نے بچشم خود ملوث دیکھا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ’’ثبوت لاؤ، ورنہ تم پر حد قذف جاری ہو گی‘‘۔ صحابہ میں اس پر عام پریشانی پھیل گئی، اور ہلال نے کہا اس خدا کی قسم جس نے آپ کو نبی بنا کر بھیجا ہے ، میں بالکل صحیح واقعہ عرض کر رہا ہوں جسے میری آنکھوں نے دیکھا اور کانوں نے سنا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ میرے معاملے میں ایسا حکم نازل فرمائے گا جو میری پیٹھ بچا دے گا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی (بخاری ، احمد ، ابو داؤد)۔ اس میں جو طریق تصفیہ تجویز کیا گیا ہے اسے اسلامی قانون کی اصطلاح میں ’’لِعان‘‘ کہا جاتا ہے۔ |