اس تمثیل میں چراغ سے اللہ تعالیٰ کی ذات کو اور طاق سے کائنات کو تشبیہ دی گئی ہے ، اور فانوس سے مراد وہ پردہ ہے جس میں حضرت حق نے اپنے آپ کو نگاہ خلق سے چھپا رکھا ہے۔ گویا یہ پردہ فی الحقیقت خِفا کا نہیں ، شدت ظہور کا پردہ ہے۔ نگاہ خلق جو اس کو دیکھنے سے عاجز ہے اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ درمیان میں تاریکی حائل ہے ، بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ درمیان کا پردہ شفاف ہے اور اس شفاف پردے سے گزر کر آنے والا نور ایسا شدید اور بسیط اور محیط ہے کہ محدود طاقت رکھنے والی بینائیاں اس کا ادراک کرنے سے عاجز رہ گئی ہیں ، یہ کمزور بینائیاں صرف ان محدود روشنیوں کا ادراک کر سکتی ہیں جن کے نادر کمی و بیشی ہوتی رہتی ہے ، جو کبھی زائل ہوتی ہیں اور کبھی پیدا ہو جاتی ہیں ،جن کے مقابلے میں کوئی تاریکی موجود ہوتی ہے اور اپنی ضد کے سامنے آ کر وہ نمایاں ہوتی ہیں۔ لیکن نور مطلق جس کا کوئی مد مقابل نہیں ، جو کبھی زائل نہیں ہوتا، جو سدا ایک ہی شان سے ہر طرف چھایا رہتا ہے ، اس کا ادراک ان کے بس سے باہر ہے۔ |