اس رکوع کو چھاپیں

سورة النور حاشیہ نمبر٦۲

 آسمانوں اور زمین کا لفظ قرآن مجید میں بالعموم ’’ کائنات ‘‘ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ لہٰذا دوسرے الفاظ میں آیت کا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ ساری کائنات کا نور ہے۔
نور سے مراد وہ چیز ہے جس کی بدولت اشیاء کا ظہور ہوتا ہے ، یعنی جو آپ سے آپ ظاہر ہو اور دوسری چیزوں کو ظاہر کرے۔ انسان کے ذہن میں نور اور روشنی کا اصل مفہوم یہی ہے۔ کچھ نہ سوجھنے کی کیفیت کا نام انسان نے اندھیرا اور تاریکی اور ظلمت رکھا ہے ، اور اس کے برعکس جب سب کچھ سمجھائی دینے لگے اور ہر چیز ظاہر ہو جائے تو آدمی کہتا ہے کہ روشنی ہو گئی۔ اللہ تعالیٰ کے یے لفظ ’’نور‘‘ کا استعمال اسی بنیادی مفہوم کے لحاظ سے کیا گیا ہے ، نہ اس معنی میں کہ معاذ اللہ وہ کوئی شعاع ہے جو ایک لاکھ 86 ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے چلتی ہے اور ہماری آنکھ کے پردے پر پڑ کر دماغ کے مرکز بینائی کو متأثر کرتی ہے۔ روشنی کی یہ مخصوص کیفیت اس معنی کی حقیقت میں شامل نہیں ہے جس کے لیے انسانی ذہن نے یہ لفظ اختراع کیا ہے ، بلکہ اس پر اس لفظ کا اطلاق ہم ان روشنیوں کے لحاظ سے کرتے ہیں جواس مادی دنیا کے اندر ہمارے تجربے میں آتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے لیے انسانی زبان کے جتنے الفاظ بھی بولے جاتے ہیں وہ اپنے اصل بنیادی مفہوم کے  اعتبار سے بولے جاتے ہیں نہ کہ ان کے مادی مدلولات کے اعتبار سے۔ مثلاً ہم اس کے  لیے دیکھنے کا لفظ بولتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ انسان اور حیوان کی طرح آنکھ نامی ایک عضو کے ذریعہ سے دیکھتا ہے۔ ہم اس کے لیے سننے کا لفظ بولتے ہیں۔ اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ ہو ہماری طرح کانوں کے ذریعہ سے سنتا ہے۔ اس کے لیے ہم پکڑ اور گرفت کے الفاظ بولتے ہیں۔ یہ اس معنی میں نہیں ہے کہ ہو ہاتھ ناک کے ایک آلہ سے پکڑتا ہے۔ یہ سب الفاظ اس کے لیے ہمیشہ ایک اطلاقی شان میں بولے جاتے ہیں اور صرف ایک کم عقل آدمی ہی اس غلط فہمی میں مبتلا ہو سکتا ہے کہ سماعت اور بینائی اور گرفت کی کوئی دوسری صورت اس محدود اور مخصوص قسم کی سماعت و بینائی اور گرفت کے سوا ہونی غیر ممکن ہے جو ہمارے تجربے میں آتی ہے۔ اسی طرح ’’نور‘‘ کے متعلق بھی یہ خیال کرنا محض ایک تنگ خیالی ہے کہ اس کے معنی کا مصداق صرف اس شعاع ہی کی صورت میں پایا جا سکتا ہے جو کسی چمکنے والے جِرم سے نکل کر آنکھ کے پردے پر منعکس ہو۔ اللہ تعالیٰ اس کا مصداق اس محدود معنی میں نہیں ہے بلکہ مطلق معنی میں ہے ، یعنی اس کائنات میں وہی ایک اصل ’’سبب ظہور‘‘ ہے ، باقی یہ ان تاریکی اور ظلمت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ دوسری روشنی دینے والی چیزیں بھی اسی کی بخشی ہوئی  روشنی سے روشن اور روشن گر ہیں ، ورنہ ان کے پاس اپنا کچھ نہیں جس سے وہ یہ کرشمہ دکھا سکیں۔
نور کا لفظ علم کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے ، اور اس کے برعکس جہل کو تاریکی اور ظلمت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس معنی میں بھی کائنات کا نور ہے کہ یہاں حقائق کا علم اور راہ راست کا علم اگر مل سکتا ہے تو اسی سے مل سکتا ہے۔ اس سے فیض حاصل کیے بغیر جہالت کی تاریکی اور نتیجۃً ضلالت و گمراہی کے سوا اور کچھ ممکن نہیں ہے۔