اس رکوع کو چھاپیں

سورة النور حاشیہ نمبر٦

 اس حکم کا منشا یہ ہے کہ معاشرے میں لوگوں کی آشنائیوں اور ناجائز تعلقات کے چرچے قطعی طور پر بند کر دیے جائیں ، کیونکہ اس سے بے شمار برائیاں پھیلتی ہیں ، اور ان میں سب سے بڑی برائی یہ ہے کہ اس طرح غیر محسوس طریقے پر ایک عام زنا کارانہ ماحول بنتا چلا جاتا ہے۔ ایک شخص مزے لے لے کر کسی کے صحیح یا غلط گندے واقعات دوسروں کے سامنے بیان کرتا ہے۔ دوسرے اس میں نمک مرط لگا کر اور لوگوں تک انہیں پہنچاتے ہیں ، اور ساتھ ساتھ کچھ مزید لوگوں کے متعلق بھی اپنی معلومات یا بد گمانیاں بیان کر دیتے ہیں۔ اس طرح نہ صرف یہ کہ شہوانی جذبات کی ایک عام رو چل پڑتی ہے ، بلکہ برے میلانات رکھنے والے مردوں اور عورتوں کو یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ معاشرے میں کہاں کہاں ان کے لیے قسمت آزمائی کے مواقع موجود ہیں۔ شریعت اس چیز کا سد باب پہلے ہی قدم پر کر دینا چاہتی ہے۔ ایک طرف وہ حکم دیتی ہے کہ اگر کوئی زنا کرے اور شہادتوں سے اس کاجرم ثابت ہو جائے تو اس کو وہ انتہائی سزا دو جوق کسی جرم پر نہیں دی  جاتی۔ اورع دوسری طرف وہ فیصلہ کرتی ہے کہ جو شخص کسی پر زنا کا الزام لگائے وہ یا تو شہادتوں سے اپنا الزام ثابت کرے ، ورنہ اس پر اسّی کوڑے برسا دو تاکہ آئندہ کبھی وہ اپنی زبان سے ایسی بات بلا ثبوت نکالنے کی جرأت نہ کرے۔ بالفرض اگر الزام لگانے والے نے کسی کو اپنی آنکھوں سے بھی بد کاری کرتے دیکھ لیا ہو تب بھی اسے خاموش رہنا چاہیے اور دوسروں تک اسے نہ پہنچانا چاہیے ، تاکہ گندگی جہاں ہے وہیں پڑی رہے ، آگے نہ پھیل سکے۔ البتہ اگر اس کے پاس گواہ موجود ہیں تو معاشرے میں بیہودہ چرچے کرنے کے بجائے معاملہ حکام کے پاس لے جائے اور عدالت میں ملزم کا جرم ثابت کر کے اسے سزا دلوا دے۔
اس قانون کو پوری طرح سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی تفصیلات نگاہ میں رہیں۔ اس لیے ہم ذیل میں ان کو نمبر وار بیان کرتے ہیں :
۱: آیت میں الفاظ ’’ سَالَّذِیْنَ یَرْمُوْ نَ ‘‘ استعمال ہوئے ہیں جن کے معنی ہیں ’’ وہ لوگ جو الزام لگائیں ‘‘۔ لیکن سیاق و سباق یہ بتاتا ہے کہ یہاں الزام سے مراد ہر قسم اک الزام نہیں ، بلکہ مخصوص طور پر زنا کا الزام ہے۔ پہلے زنا کا حکم بیان ہوا ہے اور آگے لعِان کا حکم آ رہا ہے ، ان دونوں کے درمیان اس حکم کا آنا صاف اشارہ کر رہا ہے کہ یہاں ’’الزام‘‘ سے مراد کس نوعیت کا الزام ہے۔ پھر الفاظ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ (الزام لگائیں پاک دامن عورتوں پر) سے بھی یہ اشارہ نکلتا ہے کہ مراد وہ الزام ہے جو پاک دامنی کے خلاف ہو۔ اس پر مزید یہ کہ الزام لگانے والوں سے اپنے الزام کے ثبوت میں چار گواہ لانے کا مطالبہ کیا گیا ہے جو پورے قانون اسلامی میں صرف زنا کا نصاب شہادت ہے۔ ان قرائن کی بنا پر تمام امت کے علماء کا اجماع ہے کہ اس آیت میں صرف الزام زنا کا حکم بیان ہوا ہے ، جس کے لیے علماء نے ’قَذْف‘‘ کی مستقل اصطلاح مقرر کر دی ہے تاکہ دوسری تہمت تراشیاں (مثلاً کسی کو چور، یا شرابی، یا سود خوار ، یا کافر کہ ہ دینا) اس حکم کی زد میں نہ آئیں۔ ’’ قذف‘‘ کے سوا دوسری تہمتوں کی سزا قاضی خود تجویز کر سکتا ہے ، یا مملکت کی مجلس شوریٰ حسبِ ضرورت ان کے لیے توہین اور ازالہ حیثیت عرفی کا کوئی عام قانون بنا سکتی ہے۔
۲ : آیت میں اگرچہ الفاظ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتُ (پاک دامن عورتوں پر الزام لگائیں ) استعمال ہوئے ہیں ، لیکن فقہاء اس بات پر مفتق ہیں کہ حکم صرف عورتوں ہی پر الزام لگانے تک محدود نہیں ہے بلکہ پاک دامن مردوں پر بھی الزام لگانے کا یہی حکم ہے۔ اسی طرح اگرچہ الزام لگانے والوں کے لیے اَلَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ مذکر کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے ، لیکن یہ صرف مردوں ہی کے لیے خاص نہیں ہے بلکہ عورتیں بھی اگر جرم قذف کی مرتکب ہوں تو وہ اسی حکم کی سزاوار ہوں گی۔ کیونکہ جرم کی شناخت میں قاذِف یا مقذوف کے مرد یا عورت ہونے سے کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔ لہٰذا قانون کی شکل یہ ہو گی کہ جو مرد یا عورت بھی کسی پاک دامن مرد یا عورت پر زنا کا الزام لگائے اس کا یہ حکم ہے۔ (واضح رہے کہ یہاں محصن اور محصنہ سے مراد شادی شدہ مرد و عورت نہیں بلکہ پاک دامن مرد و عورت ہیں )۔
۳ : یہ حکم صرف اسی صورت میں نافذ ہو گا جب کہ الزام لگانے والے نے محصنین یا محصنات پر الزام لگایا ہو کسی غیر محصن پر الزام لگانے کی صورت میں اس کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔ غیر محصن اگر بد کاری میں معروف ہو تب تو اس پر ’’ الزام‘‘ لگانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، لیکن اگر وہ ایسا  نہ ہو تو اس کے خلاف بلا ثبوت الزام لگانے والے کے لیے قاضی خود سزا تجویز کر سکتا ہے ، یا ایسی صورتوں کے لیے مجلس شوریٰ حسب ضرورت قانون بنا سکتی ہے۔
۴ : کسی فعل قذف کے مستلزم سزا ہونے کے لیے صرف یہ بات کافی نہیں ہے کہ کسی نے کسی پر بد کاری کا بلا ثبوت الزام لگایا ہے ، بلکہ اس کے لیے کچھ شرطیں قاذف (الزام لگانے والے ) میں اور کچھ مقذوف (الزام کے ہدف بنائے جانے والے ) میں ، اور کچھ خود فعل قذف میں پائی جاری ضروری ہیں۔
قاذف میں جو شرطیں پائی جانی چاہییں وہ یہ ہیں : اول یہ کہ وہ بالغ ہو۔ بچہ اگر قذف کا مرتکب ہوتو اسے تعزیر دی جا سکتی ہے مگر اس پر حد جاری نہیں کی جا سکتی۔ دوم یہ کہ وہ عاقل ہو۔ مجنون پر حد قذف جاری نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح حرام نشے کے سوا کسی دوسری نوعیت کے نشے کی حالت میں ، مثلاً کلوروفارم کے زیر اثر الزام لگانے والے کو بھی مجرم نہیں ٹھیرایا جا سکتا۔ سوم یہ کہ اس نے اپنے آزاد ارادے سے (فقہاء کی اصطلاح میں طائعاً ) یہ حرکت کی ہو۔ کسی کے جبر سے قذف کا ارتکاب کرنے والا مجرم قرار نہیں دیا جا سکتا۔ چہارم یہ کہ وہ مقذوف کا اپنا باپ یا دادا نہ ہو، کیونکہ ان پر حد قذف جاری نہیں کی جا سکتی۔ ان کے علاوہ حنفیہ کے نزدیک ایک پانچویں شرط یہ بھی ہے کہ ناطق ہو، گونگا اگر اشاروں میں الزام لگائے تو وہ حد قذف کا مستوجب نہ ہو گا۔ لیکن امام شافعی کو اس سے اختلاف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر گونگے کا اشارہ بالکل صاف اور صریح ہو جسے دیکھ کر ہر شخص سمجھ لے کہ وہ کیا کہنا چاہتا ہے تو وہ قاذف ہے ، کیونکہ اس کا اشارہ ایک شخص کو بد نام و رسوا کر دینے میں تصریح بالقول سے کسی طرح کم نہیں ہے۔ اس کے برعکس حنفیہ کے نزدیک محض اشارے کی صراحت اتنی قوی نہیں ہے کہ اس کی بنا پر ایک آدمی کو 80 کوٹوں کی سزا دے ڈالی جائے۔ وہ اس پر صرف تعزیر دیتے ہیں۔
مقذوف میں جو شرطیں پائی جانی چاہییں وہ یہ ہیں : پہلی شرط یہ کہ وہ عاقل ہو ، یعنی اس پر بحالت عقل زنا کرنے کا الزام لگایا گیا ہو۔ مجنون پر (خواہ وہ بعد میں عاقل ہو گیا ہو یا نہ ہوا ہو) الزام لگانے والا حد قذف کا مستحق نہیں ہے۔ کیونکہ مجنون اپنی عصمت کے تحفظ کا اہتمام نہیں کر سکتا ، اور اس پر اگر زنا کی شہادت قائم بھی ہو جائے تو نہ وہ حد زنا کا مستحق ہوتا ہے نہ اس کی عزت پر حرف آتا ہے۔ لہٰذا اس پر الزام لگانے والا بھی حد قذف کا مستحق نہ ہونا چاہیے۔ لیکن امام مالک اور امم لیث بن سعد کہتے ہیں کہ مجنون کا قاذف حد کا مستحق ہے کیونکہ بہر حال وہ ایک بے ثبوت الزام لگا رہا ہے۔ دوسری شرط یہ ہے کہ وہ بالغ ہو۔ یعنی اس پر بحالت بلوغ زنا کے ارتکاب کا الزام لگایا گیا ہو بچے پر الزام لگانا ، یا جواب پر اس امر کا الزام لگان کہ وہ بچپن میں اس فعل کا مرتکب ہوا تھا، حد قذف کا موجب نہیں ہے ، کیونکہ مجنون کی طرح بچہ بھی اپنی عصمت کے تحفظ کا اہتمام نہیں کر سکتا، نہ وہ حد زنا کا مستوجب ہوتا ہے ، اور نہ اس کی عزت مجروح ہوتی ہے۔ لیکن امام مالک کہتے ہیں کہ سن بلوغ کے قریب عمر کے لڑکے پر اگر زنا کے ارتکاب کا الزام لگایا جائے تبتو قاذف حد کا مستحق نہیں ہے ، لیکن اگر ایسی عمر کی لڑکی پر زنا کرانے کا الزام لگایا جائے جس کے ساتھ مباشرت ممکن ہو، تو اس کا قاذف حد کا مستحق ہے ، کیونکہ اس سے نہ صرف لڑکی بلکہ اس کے خاندان تک کی عزت مجروح ہو جاتی ہے اور لڑکی کا مستقبل خراب ہو جاتا ہے۔ تیسری شرط یہ ہے کہ وہ مسلمان ہو، یعنی اس پر بحالت اسلام زنا کرنے کا الزام لگایا گیا ہو، کافر پر الزام، یا مسلم پریہ الزام کہ وہ بحالت غلامی اس کا مرتکب ہوا تھا، موجب حد نہیں ہے ، کیونکہ غلام کی بے بسی اور کمزوری یہ امکان پیدا کر دیتی ہے کہ وہ اپنی عصمت کا اہتمام نہ کر سکے۔ خود قرآن میں بھی غلامی کی حالت کو اِحصان کی حالت قرار نہیں دیا گیا ہے ، چنانچہ سورہ نساء میں مُحْصَنَات کا لفظ لونڈی کے بالمقابل استعمال ہوا ہے۔ لیکن داؤد ظاہری اس دلیل کو نہیں مانتے۔ وہ کہتے ہیں کہ لونڈی اور غلام کا قاذف بھی حد کا مستحق ہے۔ پانچویں شرط یہ ہے کہ وہ عفیف ہو، یعنی اس کا دامن زنا اور شبہ زنا سے پاک ہو۔ زنا سے پاک ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس پر پہلے کبھی جرم زنا ثابت نہ ہو چکا ہو۔ شبہ زنا سے پاک ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ نکاح فاسد، یا خفیہ نکاح، یا مشتبہ ملکیت، یا شبہ نکاح میں مباشرت نہ کر چکا ہو، نہ اس کے حالات زندگی ایسے ہوں جن میں اس پر بد چلنی اور آبرو باختگی کا الزام چسپاں ہو سکتا ہو، اور نہ زنا سے کم تر درجہ کی بد اخلاقیوں کا الزام اس پر پہلے کبھی ثابت ہو چکا ہو، کیونکہ ان سب صورتوں میں اس کی عفت مجروح ہو جاتی ہے ، اور ایسی مجروح عفت پر الزام لگانے والا 80 کوڑوں کی سزا کا مستحق نہیں ہو سکتا۔ حتیٰ کہ اگر حد قذف جاری ہونے سے پہلے مقذوف کے خلاف کسی جرم زنا کی شہادت قائم ہو جائے ، تب بھی قاذف چھوڑ دیا جائے گا کیونکہ وہ شخص پاک دامن نہ رہا جس پر اس نے الزام لگایا تھا۔
مگر ان پانچوں صورتوں میں حد نہ ہونے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ مجنون، یا بچے ، یا کافر، یا غلام، یا غیر عفیف آدمی پر بلا ثبوت الزام زنا لگا دینے والا مستحق تعزیر بھی نہیں ہے۔
 اب وہ شرطیں لیجیے جو خود فعل قذف میں پائی جانی چاہییں۔ ایک الزام کو دو چیزوں میں سے کوئی ایک چیز قذف بنا سکتی ہے۔ یا تو قاذف نے مقذوف پر ایسی وطی کا الزام لگایا ہو جو اگر شہادتوں سے ثابت ہو جائے تو مقذوف پر حد واجب ہو جائے۔ یا پھر اس نے مقذوف کو ولد الزنا قرار دیا ہو۔ لیکن دونوں صورتوں میں الزام صاف اور صریح ہونا چاہیے۔ کنایات کا اعتبار نہیں ہے جن سے زنا یا طعن فی النسب مراد ہونے کا انحصار قاذف کی نیت پر ہے۔ مثلاً کسی کو فاسق فاجر ، بد کار ، بد چلن وغیرہ الفاظ سے یاد کرنا۔ یا کسی عورت کو رنڈی ، کسبن، یا چھنال کہنا، یا کسی سید کو پٹھان کہ ہ دینا  کنایہ ہے جس سے صریح قذف نہیں قرار دیا جا سکتا۔ البتہ تعریض کے معاملے میں فقہا کے درمیان اختلاف ہے کہ آیا وہ بھی قذف ہے یا نہیں۔ مثلاً کہنے والا کسی کو مخاطب کر کے یوں کہے کہ ’’ہاں ، مگر میں تو زانی نہیں ہوں ‘‘، یا ’’میری مان نے تو زنا کرا کے مجھے نہیں جنا ہے ‘‘ امام مالک کہتے ہیں کہ اس طرح کی تعریض جس سے صاف سمجھ میں آ جائے کہ قائل کی مراد مخاطب کو زانی یا ولد الزنا قرار دینا ہے ، قذف ہے جس پر حد واجب ہو جاتی ہے۔ لیکن امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب ، اور امام شافعی، سفیان ثوری، ابن شبرمَہ ، اور حسن بن صالح اس بات کی قائل ہیں کہ تعریض میں بہر حال شک کی گنجائش ہے ، اور شک کے ساتھ حد جاری نہیں کی جا سکتی۔ امام احمد اور اسحاق بن راہویہ  کہتے ہیں کہ تعریض اگر لڑائی جھگڑے میں ہو تو قذف ہے اور ہنسی مذاق میں ہو تو قذف نہیں ہے۔ خلفاء میں سے حضرت عمر اور حضرت علی نے تعریض پر حد جاری کی ہے۔ حضرت عمرؓ کے زمانے میں دو آدمیوں کے درمیان گالم گلوچ ہو گئی۔ ایک نے دوسرے سے کہا ’’ نہ میرا باپ زانی تھا نہ میری ماں زانیہ تھی ‘‘۔ معاملہ حضرت عمرؓ کے پاس آیا۔ آپ نے حاضرین سے پوچھا آپ لوگ اس سے کیا سمجھتے ہیں ؟ کچھ لوگوں نے کہا اس نے اپنے باپ اور ماں کی تعریف کی ہے ، اس کے ماں باپ پر تو حملہ نہیں کیا۔ کچھ دوسرے لوگوں نے کہا اس کے لیے اپنے ماں باپ کی تعریف کرنے کے لیے کیا یہی الفاظ رہ گئے تھے ؟ ان خاص الفاظ کو اس موقع پر استعمال کرنے سے صاف مراد یہی ہے کہ اس کے ماں باپ زانی تھے۔ حضرت عمرؓ نے دوسرے گروہ سے اتفاق کیا اور حد جاری کر دی (جصاص ج3 ، ص 330)۔ اس امر میں بھی اختلاف ہے کہ کسی پر عمل قوم لوطؑ کے ارتکاب کا الزام لگانا قذف ہے یا نہیں۔ امام ابو حنیفہؒ اس کو قذف نہیں مانتے۔ امام ابو یوسف ، امام محمد، امام مالک اور امام شافعی اسے قذف قرار دیتے ہیں اور حد کا حکم لگاتے ہیں۔
۵: جرم قذف قابل دست اندازی سرکار ) (Cognizable Offene ہے یا نہیں ،اس میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہ۔ ابن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ یہ حقُ اللہ ہے اس لیے قاذف پر بہر حال حد جاری کی جائے گی خواہ مقذوف مطالبہ کرے یا نہ کرے۔ امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کے نزدیک یہ اس معنی میں تو حق اللہ ضرور ہے کہ جب جرم ثابت ہو جائے تو حد جاری کرنا واجب ہے ،لیکن اس پر مقدمہ چلانا مقذوف کے مطالبے پر موقوف ہے ، اور اس لحاظ سے یہ حق آدمی ہے۔ یہی رائے امام شافعی اور امام اَوزاعی کی بھی ہے۔ امام مالک کے نزدیک اس میں تفصیل ہے۔ اگر حاکم کے سامنے قذف کا ارتکاب کیا جائے تو یہ جرم قابل دست اندازی سرکار ہے ، ورنہ اس پر کار روائی کرنا مقذوف کے مطالبے پر منحصر ہے۔
۶ : جرمِ قذف قابل راضی نامہ (Compoundable Offence) نہیں ہے۔ مقذوف عدالت میں دعویٰ لے کر نہ آئے تو یہ دوسری بات ہے لیکن عدالت میں معاملہ آ جانے کے بعد قاذف کو مجبور کیا جائے گا کہ وہ اپنا الزام ثابت کرے ، اور ثابت نہ ہونے کی صورت میں اس پر حد جاری کی جائے گ۔ نہ عدالت اس کو معاف کر سکتی ہے اور نہ خود مقذوف ، نہ کسی مالی تاوان پر معاملہ ختم ہو سکتا ہے۔ نہ توبہ کر کے یا معافی مانگ کر وہ سزا سے بچ سکتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد پہلے گزر چکا ہے کہ : تعافوا الحد ود  فیما بینکم فما بلغنی من حدٍّ فقد وجب۔ ’’ حدود کو آپس ہی میں معاف کر دو، مگر جس حد کا معاملہ میرے پاس پہنچ گیا وہ پھر واجب ہو گئی ‘‘۔
۷ : حنفیہ کے نزدیک حد قذف کا مطالبہ یا تو خود مقذوف کر سکتا ہے ، یا پھر وہ جس کے نسب پر اس سے حرف آتا ہو اور مطالبہ کرنے کے لیے خود مقذوف موجود نہ ہو، مثلاً باپ، ماں ، اولاد اور اولاد کی اولاد۔ مگر امام مالک اور امام شافعی کے نزدیک یہ حق قابل توریث ہے۔ مقذوف مر جائے تو اس کا ہر شرعی وارث حد کا مطالبہ کر سکتا ہے۔ البتہ یہ عجیب بات ہے کہ امام شافعی بیوی اور شوہر کو اس سے مستثنیٰ قرار دیتے ہیں اور دلیل یہ ہے کہ موت کے ساتھ رشتہ زوجیت ختم ہو جاتا ہے اور بیوی یا شوہر میں سے کسی ایک پر الزام آنے سے دورے کے نسب پر کوئی حرف نہیں آتا۔ حالانکہ یہ دونوں ہی دلیلیں کمزور ہیں۔ مطالبہ حد کو قابل توریث ماننے کے بعد یہ کہنا کہ یہ حق بیوی اور شوہر کو اس لیے نہیں پہنچتا کہ موت کے ساتھ رشتہ زوجیت ختم ہو جاتا ہے خود قرآن کے خلاف ہے ، کیونکہ قرآن نے ایک کے مرنے کے بعد دوسرے کو اس کا وارث قرار دیا ہے۔ رہی یہ بات کہ زوجین میں سے کسی ایک پر الزام آنے سے دوسرے کے نسب پر کوئی حرف نہیں آتا ، تو یہ شوہر کے معاملہ میں چاہے صحیح ہو مگر بیوی کے معاملے میں تو قطعاً غلط ہے۔ جس کی بیوی پر الزام رکھا جائے اس کی تو پوری اولاد کا نسب مشتبہ ہو جاتا ہے۔  علاوہ بریں یہ خیال بھی صحیح نہیں ہے کہ حد قذف صرف نسب پر حرف آنے کی وجہ سے واجب قرار دی گئی ہے۔ نسب کے ساتھ عزت پر حرف آنا بھی اسکی ایک اہم وجہ ہے ، اور ایک شریف مرد یا عورت کے لیے یہ کچھ کم  بے عزتی نہیں ہے کہ اس کی بیوی یا اس کے شوہر کو بد کار قرار دیا جائے۔ لہٰذا اگر حد قذف کا مطالبہ قابل توریث ہو تو زوجین کو اس سے مستثنیٰ کرنے کی کوئی معقول وجہ نہیں۔
۸: یہ بات ثابت ہو جانے کے بعد کہ ایک شخص نے قذف کا ارتکاب کیا ہے ، جو چیز اسے حد سے بچا سکتی ہے وہ صرف یہ ہے کہ وہ چار گواہ ایسے لائے جو عدالت میں یہ شہادت دیں کہ انہوں نے مقذوف کو فلاں مرد یا عورت کے ساتھ بالفعل زنا کرتے دیکھا ہے۔ حنفیہ  کے نزدیک یہ چاروں گواہ بیک وقت عدالت میں آنے چاہییں اور انہیں بیک وقت شہادت دینی چاہیے ، کیونکہ اگر وہ یکے بعد دیگرے آئیں تو ان میں سے ہر ایک قاذف ہوتا  چلا جائے گا اور اس کے لیے پھر چار گواہوں کی ضرورت ہو گی۔ لیکن یہ ایک کمزور بات ہے۔ صحیح بات وہی ہے جو امام شافعی اور عثمان البتّی نے کہی ہے کہ گواہوں کے بیک وقت آنے اور یکے بعد دیگرے آنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بلکہ زیادہ بہتر یہ ہے کہ دوسرے مقدمات کی طرح گواہ ایک کے بعد ایک آئے اور شہادت دے۔ حنفیہ کے نزدیک ان گواہوں کا عادل ہونا ضروری نہیں ہے۔ اگر قذف چار فاسق گواہ بھی لے آئے تو وہ حد قذف سے بچ جائے گا، اور ساتھ ہی مقذوف بھی حد زنا سے محفوظ رہے گا کیونکہ گواہ عادل نہیں ہیں۔ البتہ کافر ، یا اندھے ، یا غلام، یا قذف کے جرم میں پہلے کے سزا یافتہ گواہ پیش کر کے قاذف سزا سے نہیں بچ سکتا۔ مگر امام شافعی کہتے ہیں کہ قاذف اگر فاسق گواہ پیش کرے تو وہ اور اس کے گواہ سب حد کے مستحق ہوں گے۔ اور یہی رائے امام مالک کی بھی ہے۔ اس معاملے میں حنفیہ کا مسلک ہی اقرب الی الصواب معلوم ہوتا ہے۔ گواہ اگر عادل ہوں تو قاذف جرم قذف سے بری ہو جائے گا اور مقذوف پر جرم زنا ثابت ہو جائے گا۔ لیکن اگر گواہ عادل نہ ہوں تو قاذف کا قذف ، اور مقذوف کا فعل زنا، اور گواہوں کا صدق و کذب ، ساری ہی چیسیں مشکوک قرار پائیں گی اور شک کی بنا پر کسی کو بھی حد کا مستوجب قرار نہ دیا جا سکے گا۔
۹ : جو شخص ایسی شہادت پیش نہ کر سکے جو اسے جرم قذف سے بری کر سکتی ہو،اس کے لیے قرآن نے تین حکم ثابت کیے ہیں : ایک یہ کہ 80 کوڑے لگائے جائیں۔ دوسرے یہ کہ اس کی شہادت کبھی قبول نہکی جائے۔ تیسرے یہ کہ وہ فاسق ہے۔ اس کے بعد قرآن کہتا ہے : اِلَّا الَّذِیْنَ چَابُوْ ا مِنْ م  بَعْدِ ذٰلِکَ وَقَسْلَحُوْا فَاِنَّ اللہَ گَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔ (سوائے ان لوگوں کے جو اس کے بعد توبہ کریں اور اصلاح کرین کہ اللہ غفور اور رحیم ہے )۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس فقرے میں توبہ اور اصلاح سے جس معافی کا ذکر کیا گیا ہے اس کا تعلق ان تینوں احکام میں سے کس کے ساتھ ہے۔ فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ پہلے حکم سے اس کا تعلق نہیں ، یعنی توبہ سے حد ساقط نہ ہو گی اور مجرم کو سزائے تازیانہ بہر حال دی جائے گی۔ فقہاء اس پر بھی متفق ہیں کہ اس معافی تعلق آخری حکم سے ہے ، یعنی توبہ اور اصلاح کے بعد مجرم فاسق نہ رہے گا اور اللہ تعالیٰ اسے معاف کر دے گا۔ (اس میں اختلاف صرف اس پہلو سے ہے کہ آیا مجرم نفس قذف سے فاسق ہوتا ہے یا عدالتی فیصلہ صادر ہونے کے بعد فاسق قرار پاتا ہے۔ امام شافعی اور لیث بن سعد کے نزدیک وہ نفس قذف سے فاسق ہو جاتا ہے اس لیے وہ اسی وقت سے اس کو مردود الشہادت قرار دیتے ہیں۔ اس کے برعکس امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب اور امام مالک کہتے ہیں کہ وہ عدالتی فیصلہ نافذ ہو جانے کے بعد فاسق ہوتا ہے ، اس لیے وہ نفاذ حکم سے پہلے تک اس کو مقبول الشہادت سمجھتے ہیں۔ لیکن حق یہ ہے کہ مجرم کا عند اللہ فاسق ہونا نفس قذف کا نتیجہ ہے اور عند الناس فاسق ہونا اس پر موقوف ہے کہ عدالت میں اس کا جرم ثابت ہو اور وہ سزا پا جائے )۔ اب رہ جاتا ہے بیچ کا حکم، یعنی یہ کہ ’’ قاذف کی شہادت کبھی قبول نہ کی جائے ‘‘۔ فقہاء کے درمیان اس پر بڑا اختلاف واقع ہو گیا ہے کہ آیا : اِلَّا الَّذِیْنَ تَا بُوْا کے فقرے کا تعلق اس حکم سے بھی ہے یا نہیں۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ اس فقرے کا تعلق صرف آخری حکم سے ہے ، یعنی جو شخص توبہ اور اصلاح کر لے گا وہ عند اللہ اور عند الناس فاسق نہ رہے گا، لیکن پہلے دونوں حکم اس کے باوجود بر قرار رہیں گے ، یعنی مجرم پر حد جاری کی جائے گی اور وہ ہمیشہ کے لیے مردود الشہادت بھی رہے گا۔ اس گروہ میں قاضی شُریح، سَعید بن مُسَّٰب ،سعید بن جبیر، حسن بصری، ابراہیم نخعی، ابن سیرین، مکْحول ، عبدالرحمٰن بن زید، ابو حنیفہ ، ابو یوسف، زُفَر ، محمد ، سُفْیان ثوری اور حسن بن صالح جیسے اکابر شامل ہیں۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ : اِلَّا الَّذِیْنَ تَبُوْا کا تعلق پہلے حکم سے تو نہیں ہے مگر آخری دونوں حکموں سے ہے ، یعنی توبہ کے بعد قذف کے سزا یافتہ مجرم کی شہادت بھی قبول کی جائے گی اور وہ فاسق بھی نہ شمار ہو گا۔ اس گروہ میں عطاء، طاؤس ، مجاہد، شعبِی، قاسم بن محمد ، سالم، زُہری ، عِکْرِمَہ ، عمر بن العزیز، ابن ابی نجیح ، سلیمان بن یَسار، مُسْرُوق، ضحاک، مالک بن اَنَس ، عثمان البتّی ، لیث بن سعد، شافعی، احمد بن حنبل اور ابن جریر طبری جیسے بزرگ شامل ہیں۔ یہ لوگ اپنی تائید میں دوسرے دلائل کے ساتھ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس فیصلے کو بھی پیش کرتے ہیں جو انہوں نے مغیرہ بن شعبہ کے مقدمے میں کیا تھا ، کیونکہ اس کی بعض روایت میں یہ ذکر ہے کہ حد جاری کرنے کے بعد حضرت عمرؓ نے ابو بکرہ اور ان کے دونوں ساتھیوں سے کہا اگر تم توبہ کر لو (یا ’’اپنے جھوٹ کا اقرار کر لو‘‘) تو میں آئندہ تمہاری شہادت قبول کروں گا ورنہ نہیں۔ دونوں ساتھیوں نے اقرار کر لیا، مگر ابو بکرہ اپنے قول پر قائم رہے۔ بظاہر یہ ایک بڑی قوی تائید معلوم ہوتی ہے ، لیکن مغیرہ بن شعبہ کے مقدمے کی جو روداد ہم پہلے درج کر چکے ہیں اس پر گور کرنے سے صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ اس نظیر سے اس مسئلے میں استدلال کرنا درست نہیں ہے۔ وہاں نفس فعل متفق علیہ تھا اور خود مغیرہبن شعبہ کو بھی اس سے انکار نہ تھا۔ بحث اس میں تھی کہ عورت کون تھی۔ مغیرہ بن شعبہ کہتے تھے کہ وہ ان کی اپنی بیوی تھیں جنہیں یہ لوگ ام جمیل سمجھ بیٹھے۔ ساتھ ہی یہ بات بھی ثابت ہو گئی تھی کہ حضرت مغیرہ کی بیوی اور ام جمیل باہم اس حد تک مشابہ تھیں کہ واقعہ جتنی روشنی میں جتنے فاصلے سے دیکھا گیا اس میں یہ غلط فہمی ہو سکتی تھی کہ عورت ام جمیل ہے۔ مگر قرائن سارے کے سارے مغیرہ بن شعبہ کے حق میں تھے اور خود استغاثے کا بھی ایک گواہ اقرار کر چکا تھا کہ عورت صاف نظر نہ آتی تھی۔ اسی بنا پر حضرت عمرؓ نے مغیرہ بن شعبہ کے حق میں فیصلہ دیا اور ابو بکرہ کو سزا دینے کے بعد وہ بات کہی جو مذکورہ بالا روایتوں میں منقول ہوئی ہے۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر کا منشا در اصل یہ تھا کہ تم لوگ مان لو کہ تم نے بے جا بدگمانی کی تھی اور آئندہ کے لیے ایسی بد گمانیوں کی بنا پر لوگوں کے خلاف الزامات عائد کرنے سے توبہ کرو، ورنہ آئندہ تمہاری شہادت کبھی قبول نہ کی جائے گی۔ اس سے یہ نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا کہ جو شخص صریح جھوٹا ثابت ہو جائے وہ بھی حضرت عمرؓ کے نزدیک توبہ کر کے مقبول الشہادت ہو سکتا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس مسئلے میں پہلے گروہ ہی کی رائے زیادہ وزنی ہے۔ آدمی کی توبہ کا حال خدا کے سوا کوئی نہیں جان سکتا۔ ہمارے سامنے جو شخص توبہ کرے گا ہم اسے اس حد تک تو رعایت دے سکتے ہیں کہ اسے فاسق کے نام سے یاد نہ کریں ، لیکن اس حد تک رعایت نہیں دے سکتے کہ جس کی زبان کا اعتبار ایک دفعہ جاتا رہا ہے اس پر پھر محض اس لیے اعتبار کرنے لگیں کہ وہ ہمارے سامنے توبہ کر رہا ہے۔ علاوہ بریں خود قرآن کی عبادت کا انداز بیان بھی یہی بتا رہا ہے کہ : اِلَّذِیْنَ تَابُوْ ا کا تعلق صرف اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ سے ہے۔ اس لیے کہ عبارت میں پہلی وہ باتیں حکم کے الفاظ میں فرمائی گئی ہیں : ان کو اسی کوڑے مارو‘‘، ’’اور ان کی شہادت کبھی قبول نہ کرو‘‘۔ اور تیسری بات خبر کے الفاظ میں ارشاد ہوئی ہے : ’’ وہ خود ہی فاسق ہیں ‘‘۔ اس تیسری بات کے بعد متصلاً یہ فرمانا کہ ’’ سوائے ان لوگوں کے جو توبہ کر لیں ‘‘، خود ظاہر کر دیتا ہے کہ یہ استثناء آخری فقرہ خبر یہ سے تعلق رکھتا ہے نہ کہ پہلے دو محکمی فقروں سے۔ تاہم اگر یہ مان لیا جائے کہ یہ استثناء آخری فقرے تک محدود نہیں ہے ، تو  پھر کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی کہ وہ ’’شہادت قبول نہ کرو‘‘ کے فقرے تک پہنچ کر رک کیسے گیا،’’ اسّی کوڑے مارو‘‘ کے فقرے تک بھی کیوں نہ پہنچ گیا۔
۱۰ : سوال کیا جا سکتا ہے کہ اِلَّا الَّذِیْنَ تَا بُوا  کا استثنا ء آخر پہلے حکم سے بھی متعلق کیوں نہ مان لیا جائے ؟ قذف آخر ایک قسم کی توہین ہی تو ہے۔ ایک آدمی اس کے بعد اپنا قصور مان لے ، مقذوف سے معافی مانگ لے اور آئندہ کے لیے اس حرکت سے توبہ کر لے تو آخر کیوں نہ اسے چھوڑ دیا جائے جب کہ اللہ  تعالیٰ خود حکم بیان کرنے کے بعد فرما رہا ہے اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا ...... فَاِنَّ اللہَ غَفُوْرُرَّ حِیْمُ۔ یہ تو ایک عجیب بات ہو گی کہ خدا معاف کر دے اور بندے معاف نہ کریں۔ اس کا جواب یہ  ہے کہ توبہ در اصل ت و ب ۃ کے تلفظ کا نام نہیں ہے بلکہ دل کے احساس ندامت اور عزم اصلاح اور رجوع الی الخیر کا نام ہے اور اس چیز کا حال اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو معلوم نہیں ہو سکتا۔ اسی لیے توبہ سے دنیوی سزائیں معاف نہیں ہوتیں بلکہ صرف اخروی سزا معاف ہوتی ہے ، اور اسی لیے اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا ہے کہ اگر وہ توبہ کر لیں تو تم انہیں چھوڑ دو، بلکہ یہ فرمایا ہے کہ جو لوگ توبہ کر لیں گے میں ان کے حق میں غفور و رحیم ہوں۔ اگر توبہ سے دنیوی سزائیں بھی معاف ہونے لگیں تو آخر وہ کونسا مجرم ہے جو سزا سے بچنے کے لیے توبہ نہ کرے گا؟
۱۱ : یہ بھی سوال کیا جا سکتا ہے کہ ایک شخص کا اپنے الزام کے ثبوت میں شہادت نہ لا سکنا لازماً یہی معنی تو نہیں رکھتا کہ وہ جھوٹا ہو۔ کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ اس کا الزام واقعی صحیح ہو اور وہ ثبوت مہیا کرنے میں ناکام رہے ؟ پھر کیا وجہ ہے کہ اسے صرف ثبوت نہ دے سکنے کی  بنا پر فاسق ٹھیرایا جائے ، اور وہ بھی عند الناس ہی نہیں عند اللہ بھی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ایک شخص نے اگر اپنی آنکھوں سے بھی کسی کو بد کاری کرتے دیکھ لیا ہو پھر بھی وہ اس کا چرچا کرنے اور شہادت کے بغیر اس پر الزام عائد کرنے میں گنہ گار ہے شریعت الٰہی یہ نہیں چاہتی ایک شخص اگر ایک گوشے میں نجاست کی موجودگی کا اگر اس کو علم ہے تو اس کے لیے دو ہی راستے ہیں۔ یا اس کو جہاں وہ پڑی ہے وہیں پڑا رہنے دے ، یا پھر اس کی موجودگی کا ثبوت دے تاکہ حکومت اسلامی کے حکام اسے صاف کر دیں۔ ان دو راستوں کے سوا کوئی تیسرا راستہ اس کے لیے نہیں ہے۔ اگر وہ پبلک میں چرچا کرے گا تو محدود گندگی کو وسیع پیمانے پر پھیلانے کا مجرم ہو گا۔ اور اگر وہ قابل اطمینان شہادت کے بغیر حکام تک معاملہ لے جائے گا تو حکام اس گندگی کو صاف نہ کر سکیں گے۔ نتیجہ اس کا یہ ہو گاکہ اس مقدمے کی ناکامی گندگی کی اشاعت کا سبب بھی بنے گی اور بد کاروں میں جرأت بھی پیدا کر دے گی۔ اسی لیے ثبوت اور شہادت کے بغیر قذف کا ارتکاب کرنے والا بہر حال فاسق ہے خواہ وہ اپنی جگہ سچا ہی کیوں نہ ہو۔
۱۲ : حد قذف کے بارے میں فقہائے حنفیہ کی رائے یہ ہے کہ قاذف کو زانی کی بہ نسبت ہلکی مار ماری جائے۔ یعنی تازیانے تو 80 ہی ہوں ،مگر ضرب اتنی سخت نہ ہونی چاہیے جتنی زانی کو لگائی جاتی ہے۔ اس لیے کہ جس الزام کے قصور میں اسے سزا دی جا رہی ہے اس میں اس کا جھوٹا ہونا بہر حال یقینی نہیں ہے۔
۱۳ : تکرار قذف کے بارے میں حنفیہ اور جمہور فقہاءکا مسلک یہ ہے کہ قاذف نے سزا پانے سے پہلے یا سزا کے دوران میں خواہ کتنی ہی مرتبہ ایک شخص پر الزام لگایا ہو، اس پر ایک ہی حد جاری کی جائے گی۔ اور اگر اجرائے حد کے بعد وہ اپنے سابق الزام ہی کی تکرار کرتا رہے تو جو حد اسے لگائی جا چکی ہے وہی کافی ہو گی۔ البتہ اگر اجرائے حد کے بعد وہ اس شخص پرایکنیا الزام زنا عائد کر دے تو پھر نئے سرے سے مقدمہ قائم کیا جائے گا۔ مغیرہ بن شعبہ کے مقدمہ میں سزا پانے کے بعد ابو بکرہ کھلے بندوں کہتے رہے کہ ’’ میں شہادت دیتا ہوں کہ مغیرہ نے زنا کا ارتکاب کیا تھا‘‘۔ حضرت عمرؓ نے ارادہ کیا کہ ان پر پھر مقدمہ قائم کریں۔ مگر چونکہ وہ سابق الزام ہی کو دوہرا رہے تھے اس لیے حضرت علیؓ نے رائے دی کہ اس پر دوسرا مقدمہ نہیں لایا جا سکتا، اور حضرت عمرؓ نے ان کی رائے قبول کر لی۔ اس کے بعد فقہاء میں اس بات پر قریب قریب اتفاق ہو گیا کہ سزا یافتہ قاذف کو صرف نئے الزام ہی پر پکڑا جا سکتا ہے ، سابق الزام کے اعادے پر نہیں۔
۱۴ : قذف جماعت کے معاملہ میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ حنفیہ کہتے ہیں کہ اگر ایک شخص بہت سے لوگوں پربھی الزام لگائے ، خواہ ایک لفظ میں یا الگ الگ الفاظ میں ، اس پر ایک ہی حد لگائی جائے گی الّا یہ کہ حد لگنے کے بعد وہ پھر کسی نئے قذف کا ارتکاب کرے۔ اس لیے کہ آیت کے الفاظ یہ ہیں ’’ جو لوگ پاک دامن عورتوں پر الزام لگائیں ‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ ایک فرد ہی نہیں ایک جماعت پر الزام لگانے والا بھی صرف ایک ہی حد کا مستحق ہوتا ہے۔ نیز اس لیے بھی کہ زنا کا کوئی الزام ایسا نہیں ہو سکتا  جو کم از کم دو شخصوں پر نہ لگتا ہو۔ مگر اس کے باوجود شارع نے ایک ہی حد کا حکم دیا، عورت پر الزام کے لیے الگ اور مرد پر الزام کے لیے الگ حد کا حکم نہیں دیا۔ بخلاف اس کے  امام شافعی کہتے ہیں کہ ایک جماعت پر الزام لگانے والا خواہ ایک لفظ میں الزام لگائے یا الگ الگ الفاظ میں ، اس پر ہر شخص کے لیے الگ الگ پوری حد لگائی جائے گی۔ یہ رائے عثمان البتّی کی بھی ہے۔ اور ابن ابی لیلیٰ کا قول،جس میں شعبی اور اَوزاعی بھی ان کے ہم نوا ہیں یہ ہے کہ ایک لفظ میں پوری جماعت کو زانی کہنے والا ایک حد کا مستحق ہے اور الگ الگ الفاظ میں یہ ایک کو کہنے والا ہر ایک کے لیے الگ حد کا مستحق۔