اس رکوع کو چھاپیں

سورة النور حاشیہ نمبر۵۹

 اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اگر لونڈیاں خود پاک دامن نہ رہنا چاہتی ہوں تو ان کو قحبہ کری پر مجبور کیا جا سکات ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر لونڈی خود اپنی مرضی سے بد کاری کی مرتکب ہو تو وہ اپنے جرم کی آپ ذمہ در ہے ، قانون اس کے جرم پر اسی کو پکڑے گا، لیکن اگر اس کا مالک جبر کر کے اس سے یہ پیشہ کرائے تو ذمہ داری مالک کیہے اور وہی پکڑا جائے گا۔ اور ظاہر ہے کہ جبر کا سوال پیدا ہی اس وقت ہوتا ہے جب کہ کسی کو اس کی مرضی کے خلاف کسی کام پر مجبور کیا جائے۔ رہا ‘‘دنیوی فائدوں کی خاطر‘‘ کا فقرہ، تو دراصل یہ ثبوت حکم کے لیے شرط اور قید کے طور پر استعمال نہیں ہوا ہے کہ اگر مالک اس کی کمائی نہ کھا رہا ہو تو لونڈی کو قحبہ گری پر مجبور کرنے میں وہ مجرم نہ ہو، بلکہ اس سے مقصود اس کمائی کو بھی حرمت کے حکم میں شامل کرنا ہے جو اس ناجائز جبر کے ذریعہ حاصل کی گئی ہو۔
لیکن اس حکم کا پورا مقصد محض اس کے الفاظ اور سیاق و سباق سے سمجھ میں نہیں آ سکتا۔ اسے اچھی طرح سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ان حالات کو بھی نگاہ میں رکھا جائے جن میں یہ نازل ہوا ہے۔ اس وقت عرب میں قحبہ گری کی دو صورتیں رائج تھیں۔ ایک خانگی کا پیشہ۔ دوسرے باقاعدہ چکلہ۔
’’ خانگی‘‘ کا پیشہ کرنے والی زیادہ تر آزاد شدہ لونڈی ہوتی تھیں جن کا کوئی سرپرست نہ ہوتا، یا ایسی آزاد عورتیں ہوتی تھیں جن کی پشت پناہی کرنے ولا کوئی خاندان یا قبیلہ نہ ہوتا۔ یہ کسی گھر میں بیٹھ جاتیں اور کئی کئی مردوں سے بیک وقت ان کا معاہدہ ہو جاتا کہ وہ ان کو مدد خرچ دیں گے اور اپنی حاجت رفع کرتے رہیں گے۔ جب بچہ پیدا ہوتا تو عورت ان مردوں میں سے جس کے متعلق کہ ہ دیتی کہ یہ بچہ اس کا ہے اسی کا بچہ وہ تسلیم کر لیا جاتا تھا۔ یہ گویا معاشرے میں ایک مسلَّم ادارہ تھا جسے اہل جاہلیت ایک قسم کا ’’نکاح‘‘ سمجھتے تھے۔ اسلام نے آ کر نکاح کے صرف اس معروف طریقے کو قانونی نکاح قرار دیا جس میں ایک عورت کا صرف ایک شوہر ہوتا ہے اور اس طرح باقی تمام صورتیں زنا میں شمار ہو کر آپ سے آپ جرم ہو گئیں (ابو داؤد، باب فی وجوہ النکاح التی کان یتنا کح اہل الجاہلیہ)۔
دوسری صورت، یعنی کھلی قحبہ گری ، تمام تر لونڈیوں کے ذریعہ سے ہوتی تھی۔ اس کے دو طریقے تھے۔ ایک یہ کہ لوگ اپنی جواب لونڈیوں پر ایک بھری رقم عائد کر دیتے تھے کہ ہر مہینے اتنا کما کر ہمیں دیا کرو، اور وہ بے چاریاں بدکاری کرا کرا کر یہ مطالبہ پورا کرتی تھیں ، اس کے سوا نہ کسی دوسرے ذریعہ سے وہ اتنا کما سکتی تھیں ، نہ مالک ہی یہ سمجھتے تھے کہ وہ کسی پاکیزہ کسب کے ذریعہ سے یہ رقم لایا کرتی ہیں ، اور نہ جواب لونڈیوں پر عام مزدوری کی شرح سے کئی کئی گنی رقم عائد کرنے کی کوئی دوسری معقول وجہ ہی ہو سکتی تھی۔ دوسرا طریقہ یہ تھا کہ لوگ اپنی جوان جوان اور خوبصورت لونڈیوں کو کوٹھوں پر بٹھا دیتے تھے اور ان کے دروازوں پر جھنڈے لگا دیتے تھے جنہیں دیکھ کر دور ہی سے معلوم ہو جاتا تھا کہ ’’حاجتمند ‘‘ آدمی کہاں اپنی حاجت رفع کر سکتا ہے۔ یہ عورتیں ’’قلیقیات‘‘ کہلاتی تھیں اور ان کے گھر ’’ مواخیر‘‘ کے نام سے مشہور تھے۔ بڑے بڑے معزز رئیسوں نے اس طرح کے چکلے کھول رکھے تھے۔ خود عبد اللہ بن ابی (رئیس المنافقین، وہی صاحب جنہیں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی تشریف آوری سے پہلے اہل مدینہ اپنا بادشاہ بنانا طے کر چکے تھے ، اور وہی صاحب جو حضرت عائشہ پر تہمت لگانے میں سب سے پیش پیش تھے ) مدینے میں ان کا ایک باقاعدہ چکلہ موجود تھا جس میں چھ خوبصورت لونڈیاں رکھی گئی تھیں۔ ان کے ذریعہ سے وہ صرف دولت ہی نہیں کماتے تھے بلکہ عرب کے مختلف حصوں سے آنے والے معزز مہمانوں کی تواضع بھی ان ہی سے فرمایا کرتے تھے اور ان کی ناجائز اولاد سے اپنے خدم و حشم کی فعج بھی بڑھاتے تھے۔ ان ہی لونڈیوں میں سے ایک ، جس کا نام مُعاذہ تھا ، مسلمان ہو گئی اور اس نے توبہ کرنی چاہی۔ ابن ابی نے اس پر تشدد کیا۔ اس نے جا کر حضرت ابو بکر سے شکایت کی۔ انہوں نے معاملہ سرکار تک پہنچایا، اور سرکار رسالت آپ نے حکم دے دیا کہ لونڈی اس ظالم کے قبضے سے نکال لی جائے (ابن جریر، ج 18 ، ص 55 تا 58۔ 103۔ 104۔ الانتِیعاب لا بن عبد البر، ج 2 ، ص 762۔ ابن کثیر ، ج3 ، 288۔ 289)۔ یہی زمانہ تھا جب بارگاہ خداوندی سے یہ آیت نازل ہوئی۔ اس پس منظر کو نگاہ میں رکھا جائے تو صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ اصل مقصود محض لونڈیوں کو جرم زنا پر مجبور کرنے سے روکنا نہیں ہے بلکہ دولت اسلامیہ کے حدود میں قحبہ گری (Prostitution) کے کاروبار کو بالکل خلاف قانون قرار دے دینا ہے ، اور ساتھ ساتھ ان عورتوں کے لیے اعلان معافی بھی ہے جو اس کاروبار میں جبراً استعمال کی گئی ہوں۔
اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ فرمان آ جانے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اعلان فرما دیا کہ : لا مُسَاعاۃ فی الاسلام ’’اسلام میں قحبہ گری کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے ‘‘ (ابو داؤد بروایت ابن عباس، باب فی ادعاء ولد الزنا) دوسرا حکم جو آپ نے دیا وہ یہ تھا کہ زنا کے ذریعہ سے حاصل ہونے والی آمدنی حرام، ناپاک اور قطعی ممنوع ہے۔ رافع بن خدیج کی روایت ہے کہ آپ نے مہر البغیِ یعنی زنا کے معاوضے کو خبیث اور شرّ الکماسب ،ناپاک اور بد ترین آمدنی قرار دیا (ابو داؤد ، ترمذی، نسائی)۔ ابو جُحَیفَہ کہتے ہیں کہ حضورؐ نے  کسب البغی ، یعنی پیشۂ  زنا سے کمائی ہوئی آمدنی کو حرام ٹھیرایا (بخاری ، مسلم ، احمد )۔ ابو مسعود بن عمرو کی روایت ہے کہ آپ نے مَھر البَغیِ کا لین دین ممنوع قرار دیا (صحاح ستہ و احمد۔ تیسرا حکم آپ نے یہ دیا کہ لونڈی سے جائز طور پر صرف ہاتھ پاؤں کی خدمت لی جا سکتی ہے اور مالک کوئی ایسی رقم اس پر عائد، یا اس سے وصول نہیں کر سکتا جس کے متعلق وہ نہ جانتا ہو کہ یہ رقم وہ کہاں سے اور کیا کر کے لاتی ہے۔ رافع بن خدیج کہتے ہیں کہ نھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم عن کسْب الْاَمَۃ حتی یُعلَم من این ھو، ’’ رسول اللہ صلی علیہ و سلم نے لونڈی سے کوئی آمدنی وصول کرنا ممنوع قرار دیا جب تک یہ نہ معلوم ہو کہ یہ آمدنی اسے کہاں سے حاصل ہوتی ہے ‘‘ (ابو داؤد ، کتاب الاجا رہ )۔ رافع بن رِفَاعَہ انصاری کی روایت میں اس سے زیادہ واضح حکم ہے کہ نھانا نبی اللہ صلی اللہ علیہ و سلم عن کسب الامۃ الا ماعملت بید ھا و قال ھٰکذاباصابعہ نحوالخبز والغزل و النفش،’’ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ہم کو لونڈیکی کمائی سے منع کیا بجز اس کے جو وہ ہاتھ کی محبت سے حاصل کرے ، اور آپ نے ہاتھ کے اشارے سے بتایا کہ یوں ، جیسے روٹی پکانا ، صوت کاتنا، یا اون اور روئی دھنکنا ‘‘(مسند اھمد ، ابو داؤد ، و کتاب الجارہ )۔ اسی معنی میں ایک روایت ابو داؤد اور سمند احمد میں حضرت ابو ہُریرہؓ سے بھی مروی ہے جس میں کسب الاماء (لونڈیوں کی کمائی) اور مھر البغی (زنا کی آمدنی وصول کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ اس طرح نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے قرآن کی اس آیت کے منشا کے مطابق قحبہ گری کی ان تمام صورتوں کو مذہباً ناجائز اور قانوناً ممنوع قرار دے دیا جو اس وقت عرب میں رائج تھیں۔ بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر ، عبد اللہ بن ابی کی لونڈی معاذہ کے معاملہ میں جو کچھ آپ نے فیصلہ فرمایا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس لونڈی سے اس کا مالک جبراً پیشہ کرائے اس پر سے مالک کی ملکیت بھی ساقط ہو جاتی ہے۔ یہ امام زُہری کی روایات ہے جسے ابن کثیر نے مسند عبدالرزاق کے حوالہ سے نقل کیا ہے۔