اس رکوع کو چھاپیں

سورة النور حاشیہ نمبر۵۸

 یہ عام حکم ہے جس کے مخاطب آقا بھی ہیں ، عام مسلمان بھی اور اسلامی حکومت بھی۔
آقاؤں کی ہدایت ہے کہ مال کتابت میں سے کچھ نہ کچھ معاف کر دو ، چنانچہ متعدد روایات سے ثابت ہے کہ صحابہ کرام اپنے مکاتبوں کو مال کتابت کا ایک معتدبہ حصہ معاف کر دیا کرتے تھے ، حتیٰ کہ حضرت علی نے تو ہمیشہ ¼ حصہ معاف کیا ہے اور اس کی تلقین فرمائی ہے (ابن جریر)۔
عام مسلمانوں کو ہدایت ہے کہ جو مکاتب بھی اپنا مال کتابت ادا کرنے کے لیے ان سے مدد کی درخواست کرے ، وہ دل کھول کر اس کی امداد کریں۔ قرآن مجید میں زکوٰۃ کے جو مصارف بیان کیے گئے ہیں ان میں سے ایک فی الرقاب بھی ہے ، یعنی ’’ گردنوں کو بندِ غلامی سے رہا کرانا‘‘ (سورہ توبہ، آیت 60) اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک فک رقبہ ‘‘ گردن کا بند کھولنا’ ’ایک بڑی نیکی کا کام ہے (سورہ بلد آیت 13 )۔ حدیث میں ہے کہ ایک اعرابی نے آ کر نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا مجھے وہ عمل بتائیے جو مجھ کو جنت میں پہنچا دے۔ حضورؐ نے فرمایا ’’ تو نے بڑے مختصر الفاظ میں بہت بڑی بات پوچھ ڈالی۔ غلام آزاد کر، غلاموں کو  آزادی حاصل کرنے میں مدد  دے ، کسی کو جانور دے تو خوب دودھ دینے والا دے ، اور تیرا جو رشتہ دار تیرے ساتھ ظلم سے پیش آئے اس کے ساتھ نیکی کر۔ اور اگر یہ نہیں کر سکتا تو بھوکے کو کھانا کھلا، پیاسے کو پانی پلا، بھلائی کی تلقین کر، برائی سے منع کر۔ اور اگر یہ بھی نہیں کر سکتا تو اپنی زبان کو روک کر رکھ۔ کھلے تو بھلائی کے لیے کھلے ورنہ بند رہے ‘‘(بیہقی فی شعب الایمان عن البرائ بن عازب)۔
اسلامی حکومت کو بھی ہدایت ہے کہ بیت المال میں جو  زکوٰۃ جمع ہو اس میں سے مکاتب غلاموں کی رہائی کے لیے ایک حصہ خرچ کریں۔
اس موقع پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ قدیم زمانے میں غلام تین طرح کے تھے۔ ایک جنگی قیدی۔ دوسرے ، آزاد آدمی جن کو پکڑ پکڑ  کر غلام بنایا اور بیچ ڈالا جاتا تھا۔ تیسرے وہ جو نسلوں سے غلام چلے آ رہے تھے اور کچھ پتہ نہ تھا کہ ان کے آباء و اجداد کب غلام بنائے گئے تھے اور دونوں قسموں میں سے کس قسم کے غلام تھے۔ اسلام جب آیا تو عرب اور بیرون عرب، دنیا بھر کا معاشرہ ن تمام اقسام کے غلاموں سے بھرا ہوا تھا اور سارا معاشی نظام مزدوروں اور نوکروں سے زیادہ ان غلاموں کے سہارے چل رہا تھا۔ اسلام کے سامنے پہلا سوال یہ تھا کہ یہ غلام جو پہلے سے چلے آ رہے ہیں ان کا کیا  کیا جائے۔ اور دوسرا سوال یہ تھا کہ آئندہ کے لیے غلامی کے مسئلے کا کیا حل ہے۔ پہلے سوال کے جواب میں اسلام نے یہ نہیں کیا کہ یکلخت قدیم زمانے کے تمام غلاموں پر اسے لوگوں کے حقوق ملکیت ساقط کر دیتا ، کیونکہ اس سے نہ صرف یہ کہ پورا معاشرتی و معاشی نظام مفلوج ہو جاتا، بلکہ عرب کو امریکہ کی خانہ جنگی سے بھی بدر جہا زیادہ سخت تباہ کن خانہ جنگی سے دوچار ہونا پڑتا اور پھر بھی اصل مسئلہ حل نہ ہوتا جس طرح امریکہ میں حل نہ ہو سکا اور سیاہ فام لوگوں (Negroes) کی ذات کا مسئلہ بہر حال باقی رہ گیا۔ اس احمقانہ طریق اصلاح کو چھوڑ کر اسلام نے فکّ رَقَبَہ کی ایک زبردست اخلاق تحریک شروع کی اور تلقین و ترغیب مذہبی احکام اور ملکی قوانین کے ذریعہ سے لوگوں کو اس بات پر ابھارا کہ یا تو آخرت کی نجات کے لیے طوعاً غلاموں کو آزاد کریں ، یا اپنے قصوروں کے کفارے ادا کرنے کے لیے مذہبی احکام کے تحت انہیں رہا کریں ، یا مالی معاوضہ لے کر ان کو چھوڑ دیں ، اس تحریک میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے خود 63 غلام آزاد کیے۔ آپ کی بیویوں میں سے صرف ایک بیوی حضرت عائشہ کے آزاد کردہ غلاموں کی تعداد 67 تھی۔ حضور کے چچا حضرت عباس نے اپنی زندگی میں 70 غلاموں کو آزاد کیا۔ حکیم بن جزام نے 100 ، عبد اللہ بن عمر نے ایک ہزار ، ذولکلاع حمیری نے آٹھ ہزار، اور عبدالرحمٰن بن عوف نے تیس ہزار کو رہائی بخشی۔ ایسے ہی واقعات دوسرے صحابہ کی زندگی میں بھی ملتے ہیں جن میں حضرت ابو بکر اور حضرت عثمان کے نام بہت ممتاز ہیں۔ خدا کی رضا حاصل کرنے کا ایک عام شوق تھا جس کی بدولت لوگ کثرت سے خود اپنے غلام بھی آزاد کرتے تھے اور دوسروں سے بھی غلام خرید خرید کر آزاد کرتے چلے جاتے تھے۔ اس طرح جہاں تک سابق دور کے غلاموں کا تعلق ہے ، وہ خلفائے راشدین کا زمانہ ختم ہونے سے پہلے ہی تقریباً سب کے سب رہا ہو چکے تھے۔
اب رہ گیا آئندہ کا مسئلہ۔ اس کے لیے اسلام نے غلامی کی اس شکل کو تو قطعی حرام اور قانوناً مسدود کر دیا کہ کسی آزاد آدمی کو پکڑ کر غلام بنایا اور بیچا اور خریدا جائے۔ البتہ جنگی قیدیوں کو صر ف اس صورت میں غلام بنا کر رکھنے کی اجازت(حکم نہیں بلکہ اجازت) دی جب کہ ان کی حکومت ہمارے جنگی قیدیوں سے ان کا تبادلہ کرنے پر راضی نہ ہو، اور وہ خود بھی اپنا فدیہ ادا نہ کریں۔ پھر ان غلاموں کے لیے ایک طرف اس امر کا موقع کھلا رکھا گیا کہ وہ اپنے مالکوں سے مکاتبت کر کے رہائی حاصل کر لیں اور دوسری طرف وہ تمام ہدایات ان کے حق میں موجود رہیں جو قدیم غلاموں کے بارے میں تھیں کہ نیکی کا کام سمجھ کر رضائے الٰہی کے لیے انہیں آزاد کیا جائے ، یا گناہوں کے کفارے میں ان کو آزادی بخش دی جائے ، یا کوئی شخص اپنی زندگی تک اپنے غلام کو غلام رکھے اور بعد کے لیے وصیت کر دے کہ اس کے مرتے ہیں وہ آزاد ہو جائے گا (جسے اسلامی فقہ کی اصطلاح میں تدبیر اور ایسے غلام کو مدبر کہتے ہیں ) ، یا کوئی شخص اپنی لونڈی سے تمتع کرے اور اس کے ہاں اولاد ہو جائے ، اس صورت میں مالک کے مرتے ہیں وہ آپ  سے آپ آزاد ہو جائے گی خواہ مالک نے وصیت کی ہو یا نہ کی ہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ حل ہے جو اسلام نے غلامی کے مسئلے کا کیا ہے۔ جاہل معترضین اس کو سمجھے بغیر اعتراضات جڑتے ہیں ، اور معذرت پیشہ حضرات اس کی معذرتیں پیش کرتے کرتے آخر کار اس امر واقعہ ہی کا انکار کر بیٹھتے ہیں کہ اسلام نے غلام کو کسی نہ کسی صورت میں باقی رکھا تھا۔