اس رکوع کو چھاپیں

سورة النور حاشیہ نمبر۵۷

بھلائی سے مراد تین چیزیں ہیں :
ایک یہ کہ غلام میں مال کتابت ادا کرنے کی صلاحیت ہو، یعنی وہ کما کر یا محنت کر کے اپنی آزادی کا فدیہ ادا کر سکتا ہو، جیسا کہ ایک مرسل حدیث میں ہے کہ حضورؐ نے فرمایا : ان علمتم فیھم حرفۃ ولا ترسلوھم کلَّا علی الناس، ’’ اگر تمہیں معلوم ہو کہ وہ کما سکتا ہے تو مکاتبت کرو۔ یہ نہ ہو کہ اسے لوگوں سے بھیک مانگتے پھرنے کے لیے چھوڑ دو‘‘۔ (ابن کثیر بحوالہ ابو داؤد)
دوسرے یہ کہ اس میں اتنی دیانت اور راست بازی موجود ہو کہ اس کے قول پر اعتماد کر کے معاہدہ کیا جا سکے۔ ایسا نہ ہو مکاتبت کر کے وہ مالک کی خدمت سے چھٹی بھی پالے ور جو کچھ اس دوران میں کمائے اسے کھا پی کر برابر بھی کر دے۔
تیسرے یہ کہ مالک اس میں ایسے بُرے اخلاقی رجحانات ، یا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف دشمنی کے ایسے تلٰ جذبات نہ پاتا ہو جن کی بنا پر یہ اندیشہ ہو کہ اس کی آزادی مسلم معاشرے کے لیے خطرناک ہو گی۔ بالفاظ دیگر اس سے یہ توقع کی جا سکتی ہو کہ مسلم معاشرے کا ایک اچھا آزاد شہری بن سکے گا نہ کہ آستین کا سانپ بن کر رہے گا۔ یہ بات پیش نظر رہے کہ معاملہ جنگی قیدیوں کا بھی تھا جن کے بارے میں یہ احتیاطیں ملحوظ خاطر رکھنے کی ضرورت تھی۔