اس رکوع کو چھاپیں

سورة النور حاشیہ نمبر۴۹

 اس موقع پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان دوسری اصلاحات کا بھی ایک خلاصہ دے دیا جائے جو ان احکام کے نزول کے بعد قرآن کی روح کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اسلامی معاشرے میں رائج فرمائیں :
1: آپ نے محرم رشتہ داروں کی غیر موجودگی میں دوسرے لوگوں کو (خواہ وہ رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں ) کسی عورت سے تنہا ملنے اور اس کے پاس تنہا بیٹھنے سے منع فرما دیا۔ حضرت جابر بن عبد اللہ کی روایت ہے کہ آپ نے فرمایا : لا تلجو ا علی المغیبات جان الشیطان یجریمن احدکم مجری الدم، ’’ جن عورتوں کے شوہر باہر گئے ہوئے ہوں ان کے پاس نہ جاؤ، کیونکہ شیطان تم میں سے ایک شخص کے اندر خون کی طرح گردش کر رہا ہے ‘‘ (ترمذی)۔ ان ہی حضرت جابر کی دوسری روایت ہے کہ حضور نے فرمایا من کان یؤمن باللہ ولیوم الاٰخر فلا یخلون بامرأۃ لیس معھا ذو محرم منھا فان ثالثھما الشیطان، ’’ جو شخص اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتا ہو وہ کبھی کسی عورت سے تنہائی میں نہ ملے جب تک کہ اس کے ساتھ اس عورت کا کوئی محرم نہ ہو، کیونکہ تیسرا اس وقت شیطان ہوتا ہے ‘‘ (احمد)۔ قریب قریب اسی مضمون کی ایک اور روایت امام احمد نے عامر بن ربیعہ سے نقل کی ہے۔ اس معاملے میں حضور کی اپنی احتیاط کا یہ عالم تھا کہ ایک دفعہ رات کے وقت آپ حضرت صفیہ کے ساتھ ان کے مکان کی طرف جا رہے تھے۔ راستے میں دو انصاری پاس سے گزرے۔ آپ نے ان کو روک کر ان سے فرمایا یہ میرے ساتھ میری بیوی صفیہ ہیں۔ انہوں نے عرض کیا سبحان اللہ، یا رسول اللہ ، بھلا آپ کے متعلق بھی کوئی بد گمانی ہو سکتی ہے ؟ فرمایا شیطان آدمی کے اندر خون کی طرح گردش کرتا ہے ، مجھے اندیشہ ہوا کہیں وہ تمہارے دل میں کوئی برا گمان نہ ڈال دے (ابو داؤد، کتاب الصوم)۔
2 : آپ نے اس کو بھی جائز نہیں رکھا کہ کسی مرد کا ہاتھ کسی غیر محرم عورت کے جسم کو لگے۔ چنانچہ آپ مردوں سے بیعت تو ہاتھ میں ہاتھ لے کر کرتے تھے ، لیکن عورتوں سے بیعت لینے کا یہ طریقہ آپ نے کبھی اختیار نہیں فرمایا۔ حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ ’’ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ہاتھ کبھی کسی غیر عورت کے جسم کو نہیں لگا۔ آپ عورت سے صرف زبانی عہد لیتے تھے اور جن وہ عہد کر چکتی تھی تو فرماتے ، جاؤ بس تمہاری بیعت ہو گئی‘‘ (ابو داؤد ، کتاب الخراج )۔
3 : آپ نے عورت کو محرم کے بغیر تنہا یا غیر محرم کے ساتھ سفر کرنے سے سختی کے ساتھ منع فرما دیا۔ بخاری و مسلم میں ابن عباس کی روایت ہے کہ حضور نے خطبہ میں فرمایا : یخلون رجل بامرأۃ الا و معھا زو محرم، ولا تسافرالمرأۃ لا مع ذی محرم ، ’ کوئی مرد کیسی عورت سے خلوت میں نہ ملے جب تک کہ اس کے ساتھ اس کا کوئی محرم نہ ہو، اور کوئی عورت سفر نہ کرے جب تک کہ اس کا کوئی محرم اس کے ساتھ نہ ہو‘‘۔ ایک شخص نے اٹھ کر عرض کیا میری بیوی حج کو جا رہی ہے اور میرا نام فلاں مہم پر جانے والوں میں لکھا جا چکا ہے۔ حضورؐ نے فرمایا : فانطلق فحج مع امرأتک، ’’ اچھا تو تم اپنی بیوی کے ساتھ حج کو چلے جاؤ ‘‘۔ اس مضمون کی متعدد احادیث ابن عمر،ابو سعید خدری اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہم سے معتبر کت حدیث میں مروی ہیں جن میں صرف مدت سفر یا مسافت سفت کے اعتبار سے اختلاف بیان ہے ، مگر اس امر میں اتفاق ہے کہ کسی مومن عورت کے لیے جو اللہ اور یوم آخر کو مانتا ہو، محرم کے بغیر سفر کرنا حلال نہیں ہے۔ ان میں سے کیس حدیث میں 12 میل یا اس سے زیادہ کے سفر پر پابندی کا ذکر ہے ، کسی میں ایک دن ، کسی میں ایک شب و روز، کسی میں دو دن اور کسی میں تین دن کی حد بتائی گئی ہے۔ لیکن یہ اختلاف ان احادیث کونہ تو ساقط الاعتبار بنا دیتا ہے اور نہ اس کی وجہ سے یہی ضروری ہے کہ ان میں سے کسی ایک روایت کو دوسری روایتوں پر ترجیح دے کر اس حد کو قانونی مقدار قرار دینے کی کوشش کریں جو اس روایت میں بیان ہوئی ہو۔ اس لیے کہ اس اختلاف کی یہ معقول وجہ سمجھ میں آ سکتی ہے کہ مختلف مواقع پر جیسی صورت معاملہ حضور کے سامنے پیش ہوئی ہو اسی کے لحاظ سے آپ نے حکم بیان فرمایا ہو۔ مثلاً کوئی عورت تین دن کی مسافت پر جا رہی ہو اور آپ نے اسے محرم کے بغیر جانے سے منع فرمایا ہو، اور کوئی ایک دن کی مسافت پر جا رہی ہو اور آپ نے اسے بھی روک دیا ہو۔ اس میں مختلف سائلوں کے الگ الگ حالات اور ہر ایک کو آپ کے مختلف جوابات اصل چیز نہیں ہیں ، بلکہ اصل چیز وہ قاعدہ ہے جو اوپر ابن عباس والی روایت میں ارشاد ہوا ہے ، یعنی سفر، جسے عرف عام میں سفر کہا جاتا ہے ، محرم کے بغیر کسی عورت کو نہ کرنا چاہیے۔
4 : آپ نے عورتوں اور مردوں کے اختلاط کو روکنے کی عملاً بھی کوشش فرمائی اور قولاً بھی اس سے منع فرمایا اسلامی زندگی میں جمعہ اور جماعت کی جو اہمیت ہے ، کسی صاحب علم سے پوشیدہ نہیں۔ جمع کہ اللہ نے خود فرض کیا ہے ، اور نماز با جماعت کی اہمیت کا اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اگر کوئی شخص بلا عذر مسجد میں حاضر نہ ہو اور اپنے گھر میں نماز پڑھے تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے قول کے مطابق اس کی نماز مقبول ہی نہیں ہوتی (ابو داؤد، ابن ماجہ ، دار قطنی، حاکم، بروایت ابن عباس )۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے عورتوں کو جمعہ کی فرضیت سے مستثنیٰ قرار دیا (ابو داؤد  بروایت ام عطیہ، دارقطنی و بیہقی بروایت جابر، ابو داؤد دو حاکم بروایت طارق بن شہاب)۔ اور نماز با جماعت میں عورتوں کی شرکت نہ صرف یہ کہ لازم نہیں رکھی بلکہ اس کی اجازت ان الفاظ میں دی کہ اگر وہ آنا چاہیں تو انہیں رد کو نہیں۔ پھر اس کے ساتھ یہ تصریحبھی فرمادی کہ ان کے لیے گھر کی نماز مسجد کی نماز سے افضل ہے۔ ابن عمرؓ اور ابو ہریرہؓ کی روایت ہے کہ حضور نے فرمایا : لا تمنعوا اماء اللہ مساجد اللہ، ’’اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجدوں میں آنے سے منع نہ کرو‘‘(ابو داؤد)۔ دوسری روایات ابن عمر سے ان الفاظ اور ان سے ملتے جلتے الفاظ میں ہیں : ائذنو اللنساء الی المساجد باللیل ، ’’ عورتوں کو رات کے وقت مسجدوں میں آنے کی اجازت دو‘‘ (بخاری ، مسلم، ترمذی ، نسائی، ابو داؤد)۔ اور ایک روایت ان الفاظ میں ہے : لا منعو انساء کم المساجد و بیوتھن خیر لھن ، اپنی عورتوں کو مسجدوں میں آنے سے روکو نہیں ، اگرچہ ان کے گھر ان کے لیے زیادہ بہتر ہیں ‘‘ (احمد، ابو داؤد )۔ ام حمید ساعدیہ کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ مجھے آپ کے پیچھے نماز پڑھنے کا بڑا شوق ہے۔ فرمایا’’ تمہارا اپنے کمرے میں نماز پڑھنا برآمدے پڑھنے سے بہتر ہے ، اور تمہارا اپنے گھر ہی میں نماز پڑھنا اپنے محلے کی مسجد میں پڑھنے سے بہتر ہے ، اور تمہارا اپنے محلے کی مسجد میں نماز پڑھنا جامع مسجد میں پڑھنے سے بہتر ہے ‘‘(احمد ، طبرانی)۔ قریب قریب اسی مضمون کی روایت ابو داؤد میں عبد اللہؓ بن مسعود سے مروی ہے ، اور حضرت ام سلمہ کی روایت میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے الفاظ یہ ہیں : خیر مساجد النساء قعر بیوتھن، ’’ عورتوں کے لیے بہترین مسجد ان کے گھروں کے اندرونی حصے ہیں ‘‘۔ (احمد، طبرانی)۔ لیکن حضرت عائشہ دور بنی امیہ کی حالت دیکھ کر فرماتی ہیں ’’ اگر نبی صلی اللہ علیہ و سلم عورتوں کے یہ رنگ ڈھنگ دیکھتے جو  اب ہیں تو ان کا مسجدوں میں آنا اسی طرح بند فرما دیتے جس طرح بنی اسرائیل کی عورتوں کا آنا بند کیا گیا تھا‘‘ (بخاری، مسلم، ابو داؤد)۔ مسجد نبوی میں حضورؐ نے عورتوں کے داخل ہونے کے لیے ایک الگ دروازہ مخصوص کر دیا تھا، اور حضرت عمر اپنے دور حکومت میں مردوں کو اس دروازے سے آنے جانے کی سخت ممانعت فرماتے تھے (ابو داؤد، باب اعتزال النساء فی المساجد اور اباب ماجاء فی خروج النساء الیالمساجد)۔ جماعت میں عورتوں کی صفیں مردوں سے پیچھے رکھی جاتی تھیں اور نماز کے خاتمے پر حضور سلام پھیرنے کے بعد کچھ دیر توقف فرماتے تھے تاکہ مردوں کے اٹھنے سے پہلے عورتیں اٹھ کر چلی جائیں (احمد ، بخاری ،بروایت ام سلمہ)۔ آپ کا ارشاد تھا کہ مردوں کی بہترین صف سب سے آگے کی صف ہے اور بد ترین صف سب سے پیچھے (یعنی عورتوں سے قریب) کی صف۔ اور عورتوں کی بہترین صف سب سے پیچھے کی صف ہے اور بد ترین صف سب سے آگے کی (ینعی مردوں سے قریب کی) صف ہے (مسلم۔ ابوداؤد ، ترمذی نسائی، احمد )۔ عیدین کی نماز میں عورتیں شریک ہوتی تھیں مگر ان کی جگہ مردوں سے الگ تھی اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم خطبے کے بعد عورتوں کی طرف جا کر ان کو الگ خطاب فرماتے تھے (ابو داؤد بروایت جابر بن عبد اللہ۔ بخاری و مسلم بروایت بن عباس)۔ ایک مرتبہ مسجد نبوی کے باہر آنحضرت نے دیکھا کہ راستے میں مرد اور عورت سب گڈ مڈ ہو گئے ہیں۔ اس پر آپ نے عورتوں فرمایا : استاخرن فانہ لیس لکن ان تھتضن الطریق، علیکن بحانات الطریق، ’’ پھر جاؤ، تمہارے لیے سڑک کے بیچ میں چلنا درست نہیں ہے ، کنارے پر چلو ‘‘۔ یہ ارشاد سنتے ہی عورتیں کنارے ہو کر دیوروں کے ساتھ ساتھ چلنے لگیں (ابو داؤد)۔ ان احکام سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں اور مردوں کی مخلوط مجلد اسلام کے مزاج سے کیسی سخت مغائرت رکھتی ہے۔ جو دین خدا کے گھر میں عبادت کے موقع پر بھی دونوں صنفوں کو خلط ملط نہیں ہونے دیتا اس کے متعلق کون تصور کر سکتا ہے کہ وہ کالجوں میں ، دفتروں میں ، کلبوں اور جلسوں میں اسی اختلاط کو جائز رکھے گا۔
5 : عورتوں کو اعتدال کے ساتھ بناؤ سنگھار کرنے کی آپ نے نہ صرف اجازت دی ہے بلکہ بسا اوقات خود اس کی ہدایت فرمائی ہے ، مگر اس میں حد سے گزر جانے کو بڑی سختی کے ساتھ روکا ہے۔ اس زمانے میں جس قسم کے بناؤ سنگھار عرب کی عورتوں میں رائج تھے ان میں سے حسب ذیل چیزوں کو آپ نے قابل لعنت اور سبب ہلا کت اقوام قرار دیا : اپنے بالوں میں دوسرے بال ملا کر ان کو زیادہ لمبا اور گھنا دکھانے کی کوشش کرنا۔ جسم کے مختلف حصوں کو گود نا اور مصنوعی تِل بنانا۔ بال اکھاڑ اکھاڑ کر بھویں خاص وضع می بنانا اور روئیں نوچ نوچ کر منہ صاف کرنا۔ دانتوں کو گھس گھس کر باریک بنانا ، یا دانتوں کے درمیان مصنوعی چھینیاں پیدا کرنا۔ زعفران یا درس وغیرہ کے مصنوعی ابٹنے مل کر چہرے پر مصنوعی رنگ پیدا کرنا۔ یہ احکام صحاح ستہ اور مسند احمد میں حضرت عائشہ، حضرت اسماء بنت ابی بکر، حضرت عبدا للہ بن مسعود، عبداللہ بن عمر، عبدا اللہ بن عباس، اور امیر معادیہ سے معتبر سندوں کے ساتھ مروی ہیں۔
اللہ اور رسول کی ان صاف صاف ہدایات کو دیکھ لینے کے بعد ایک مومن انسان کے لیے دو ہی صورتیں رہ جاتی ہیں۔ یا تو وہ ان کی پیروی کرے اور اپنی ، اپنے گھر کی اور اپنے معاشرے کی زندگی کو ان اخلاقی فتنوں سے پاک کر دے جن کے سد باب کے لیے اللہ نے قرآن میں اور اسکے رسول نے سنت میں اس قدر تفصیلی احکام دیے ہیں۔ یا پھر اگر وہ اپنے نفس کی کمزوری کے باعث ان کی یا ان میں سے کسی کی خلاف ورزی کرتا ہے تو کم از کم اسے گناہ سمجھتے ہوئے کرے اور اس کو گناہ مانے ، اور خواہ مخواہ کی تاویلوں سے گناہ کو صواب بنانے کی کوشش نہ کرے۔ ان دونوں صورتوں کو چھوڑ کر جو لوگ قرآن و سنت کے صریح احکام کے خلاف مغربی معاشرت کے طور طریقے اختیار کر لینے ہی پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ پھر ان ہی کو عین اسلام ثابت کرنے کی کوشش شروع کر دیتے ہیں اور علانیہ دعوے کرتے پھرتے ہیں کہ اسلام میں سرے سے پردے کا حکم موجود ہی نہیں ہے ، وہ گناہ اور نافرمانی پر جہالت اور منافقانہ ڈھٹائی کا اور اضافہ کر لیتے ہیں جس کی قدر نہ دنیا میں کوئی شریف آدمی کر سکتا ہے نہ آخرت میں خدا سے اس کی امید کی جا سکتی ہے۔ لیکن مسلمانوں میں تو منافقوں سے بھی چار قدم آگے بڑھ کر ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو خدا اور رسول کے ان احکام کو غلط اور ان طریقوں کو صحیح و بر حق سمجھتے ہیں جو انہوں نے غیر مسلم قوموں سے سیکھے ہیں۔ یہ لوگ در حقیقت مسلمان نہیں ہین، کیونکہ اس کے بعد بھی اگر وہ مسلمان ہوں تو پھر اسلام اور کفر کے الفاظ قطعاً بے معنی ہو جاتے ہیں۔ اگر یہ لوگ اپنے نام بدل دیتے اور علانیہ اسلام سے نکل جاتے تو ہم کم از کم ان کی اخلاقی جرأت کا اعتراف کرتے۔ لیکن ان کا  حال یہ ہے کہ یہ خیالات رکھتے ہوئے بھی وہ مسلمان بنے پھرتے ہیں۔ انسانیت کی اس سے زیادہ ذلیل قسم غالباً دنیا میں اور کوئی نہیں پائی جاتی۔ اس سیرت و اخلاق کے لوگوں سے کوئی جعل سازی ، کوئی فریب، کوئی دغا بازی اور کوئی خیانت بھی خلاف توقع نہیں ہے۔