اس رکوع کو چھاپیں

سورة النور حاشیہ نمبر۴۷

 نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس حکم کو صرف زیوروں کی جھنکار تک محدود نہیں رکھا ہے ، بلکہ اس سے یہ اصول اخذ فرمایا ہے کہ نگاہ کے سو دوسرے حواس کو مشتعل کرنے والی چیزیں بھی اس مقصد کے خلاف ہیں جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو اظہار زینت سے منع فرمایا ہے۔ چنانچہ آپؐ نے عورتوں کو حکم دیا کہ خوشبو لگا کر باہر نہ نکلیں۔ حضرت ابو ہریرہ کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا : لا تمنعوا اماء اللہ مَسَا جد اللہ ولکن لیخرجن وھن تفلات، ’’ اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجدوں میں آنے سے منع نہ کرو، مگر وہ خوشبو لگا کر نہ آئیں ‘‘۔ (ابو داؤد، احمد)۔ اسی مضمون کی ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ایک عورت مسجد سے نکل کر جا رہی تھی کہ حضرت ابو ہریرہ اس کے پاس سے گزرے اور انہوں نے محسوس کیا کہ وہ خوشبو لگائے ہوئے ہے۔ انہوں نے اسے روک کر پوچھا’’ اے خدائے جبار کی بندی ، کیا تو مسجد سے آ رہی ہے‘‘؟ اس نے کہا ہاں۔ بولے ’’میں نے اپنے محبوب ابوالقاسم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ جو عورت مسجد میں خوشبو لگا کر آئے اس کی نماز اس وقت تک قبول نہیں ہوتی جب تک وہ گھر جا کر غسل جنابت نہ کر لے ‘‘(ابو داؤد ، ابن ماجہ ، احمد، نسائی )۔ ابو موسیٰ اشعری فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اذا استعطرت المرأۃ فمرت علی القوم لیجد وار یحھا فھی کذا وکذا قال قولا شدید ا، ’’ جو عورت عطر لگا کر راستے سے گزرے تاکہ لوگ اس کی خوشبو سے لطف اندوز ہوں تو وہ ایسی اور ایسی ہے۔ آپ نے اس کے لیے بڑے سخت الفاظ استعمال فرمائے ‘‘(ترمذی، ابو داؤد، نسائی)۔ آپ کی ہدایت یہ تھی کہ عورتوں کو وہ خوشبو استعمال کرنی چاہیے جس کا رنگ تیز ہو اور بو ہلکی ہو (ابو داؤد)۔
اسی طرح آپ نے اس بات کو بھی نا پسند فرمایا کہ عورتیں بلا ضرورت اپنی آواز مردوں کو سنائیں۔ ضرورت پڑنے پر بات کرنے کی اجازت تو خود قرآن میں دی گئی ہے ، اور لوگوں کو دینی مسائل خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ازواج مطہرات بتایا کرتی تھیں۔ لیکن جہاں اس کی نہ ضرورت ہو اور نہ کوئی دینی یا اخلاقی فائدہ ، وہاں اس بات کو پسند نہیں کیا گیا ہے کہ عورتیں اپنی آواز غیر مردوں کو سنائیں۔ چنانچہ نماز میں اگر امام بھول جائے تو مردوں کو حکم ہے کہ سبحان اللہ کہیں ، مگر عورتوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ اپنے ایک ہاتھ پر دوسرا ہاتھ مار کر امام کو متنبہ کریں۔ التسبیح للرجال والتصفیق اللنساء (بخاری ، مسلم، احمد، ترمذی، ابو داؤد ، نسائی، ابن ماجہ)۔