اس حکم کا مطلب سمجھنے میں بھی فقہاء کے درمیان اختلاف واقع ہوا ہے۔ ایک گروہ اس سے مراد صرف وہ لونڈیاں لیتا ہے جو کسی عورت کی ملک میں ہوں۔ ان حضرات کے نزدیک ارشاد الٰہی کا مطلب یہ ہے کہ لونڈی خواہ مشرکہ ہو یا اہل کتاب میں سے ، مسلمان مالکہ اس کے سامنے تو اظہار زینت کر سکتی ہے مگر غلام، چاہے وہ عورت کا اپنا مملوک ہی کیوں نہ ہو، پردے کے معاملہ میں اس کی حیثیت وہی ہے جو کسی آزاد اجنبی مرد کی ہے۔ یہ عبد اللہ بن مسعود، مجاہد، حسن بصری، ابن سیرین، سعید بن مُسَیَّب، طاؤس اور امام ابو حنیفہ کا مذہب ہے اور ایک قول امام شافعی کا بھی اسی کی تائید میں ہے۔ ان بزرگوں کا استدلال یہ ہے کہ غلام کے لیے اس کی مالکہ محرم نہیں ہے۔ اگر وہ آزاد ہو جائے تو اپنی اسی سابق مالکہ سے نکاح کر سکتا ہے۔ لہٰذا محض غلامی اس امر کا سبب نہیں بن سکتی کہ عورت اس کے سامنے وہ آزادی برتے جس کی اجازت مرحم مردوں کے سامنے برتنے کے لیے دی گئی ہے۔ رہا یہ سوال کہ : ما ملکت ایمانھن کے الفاظ عام ہیں ، جو لونڈی اور غلام دونوں کے لیے استعمال ہوتے ہیں ، پھر اسے لونڈیوں کے لیے خاص کرنے کی کیا دلیل ہے ؟ اس کا جواب وہ یہ دیتے ہیں کہ یہ الفاظ اگرچہ عام ہیں مگر موقع و محل ان کا مفہوم لونڈیوں کے لیے خاص کر رہا ہے۔ پہلے نِسَآءِ ھِنَّ فرمایا ، پھر ما ملکت ایما نھن ارشاد ہوا۔ نِسَآءِ ھِنَّ کے الفاظ سن کر عام آدمی یہ سمجھ سکتا تھا کہ اس سے مراد وہ عورتیں ہیں جو کسی عورت کی ملنے جلنے والی یا رشتہ دار ہوں۔ اس سے یہ غلط فہمی پیدا ہو سکتی تھی کہ شاید لونڈیاں اس میں شامل نہ ہوں۔ اس لیے ماملکت ایمانھن کہ ہ کر یہ بات صاف کر دی گئی کہ آزاد عورتوں کی طرح لونڈیوں کے سامنے بھی اظہار زینت کیا جا سکتا ہے۔ |