اس رکوع کو چھاپیں

سورة النور حاشیہ نمبر۳١

 عورتوں کے لیے بھی غض بصر کے احکام وہی ہیں جو مردوں کے لیے ہیں ، یعنی انہیں قصداً غیر مردوں کو نہ دیکھنا چاہیے ، نگاہ پڑ جائے تو ہٹا لینی چاہیے ، اور دوسروں کے ستر کو دیکھنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ لیکن مرد کے عورت کو دیکھنے کی بہ نسبت عورت کے مرد کو دیکھنے کے معاملہ میں احکام تھوڑے سے مختلف ہیں۔ ایک طرف حدیث میں ہم کو یہ واقعہ ملتا ہے کہ حضرت ام سلمہ اور حضرت میمونہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس بیٹھی تھیں ، اتنے میں حضرت ابن ام مکتوم آ گئے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے دونوں بیویوں سے فرمایا حتجبا منہ ، ’’ ان سے پردہ کرو‘‘۔ بیویوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ الیس اعمیٰ لا یبصرناو لایعرفنا ، ’’ یا رسول اللہ ، کیا یہ اندھے نہیں ہیں ؟ نہ ہمیں دیکھیں گے نہ پہچانیں گے ‘‘۔ فرمایا : افعمیا وان انتما، الستما تبصرانہٖ ، ’’ کیا تم دونوں بھی اندھی ہو ؟ کیا تم انہیں نہیں دیکھتیں ‘‘؟ حضرت ام سلمہ تصریح کرتی ہیں کہ : ذٰالک بعد ان اُمِرا بالحجاب ، ’’ یہ واقعہ اس زمانے کا ہے جب پردے کا حکم آ چکا تھا ‘‘۔ (احمد ، ابوداؤد، ترمذی)۔ اور اس کی تائید مؤطا کی یہ روایت کرتی ہے کہ حضرت عائشہؓ کے پاس ایک نا بینا آیا تو انہوں نے اس سے پردہ کیا۔ کہا گیا کہ آپ اس سے پردہ کیوں کرتی ہیں ، یہ تو آپ کو نہیں دیکھ سکتا۔ جواب میں ام المومنین نے فرمایا: لٰکنی نظرالیہ ، ’’ میں تو اسے دیکھتی ہوں ‘‘۔ دوسری طرف ہمیں حضرت عائشہ کی یہ روایت ملتی ہے کہ 7 ھ میں حبشیوں کا وفد مدینے آیا اور اس نے مسجد نبوی کے احاطے میں ایک تماشا کیا۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے خود حضرت عائشہؓ کو یہ تماشا دکھایا (بخاری ، مسلم، احمد)۔ تیسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ فاطمہ بنت قیس کو جب ان کے شوہر نے تین طلاقیں دے دیں تو سوال پیدا ہوا کہ وہ عدت کہاں گزاریں۔ پہلے حضورؐ نے فرمایا ام شریک انصاریہ کے ہاں رہو۔ پھر فرمایا ’’ان کے ہاں میرے صحابہ بہت جاتے رہتے ہیں (کیونکہ وہ ایک بڑی مالدار اور فیاض خاتون تھیں ، بکثرت لوگ ان کے ہاں مہمان رہتے اور وہ ان کی ضیافت کرتی تھیں ،)لہٰذا تم ابن ام مکتوم کے ہاں۔ رہو، وہ اندھے آدمی ہیں۔ تم ان کے ہاں بے تکلف رہ سکوگی ‘‘ (مسلم ، ابو داؤد)۔ ان روایات کو جمع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں ہے کہ عورتوں کے مردوں کو دیکھنے کے معاملے میں اتنی سختی نہیں ہے جتنی مردوں کے عورتوں کو دیکھنے کے معاملے میں ہے۔ ایک مجلس میں آمنے سامنے بیٹھ کر دیکھنا ممنوع ہے۔ راستہ چلتے ہوئے یا دور سے کوئی جائز قسم کا کھیل تماشا دیکھتے ہوئے مردوں پر نگاہ پڑنا ممنوع نہیں ہے۔ اور کوئی حقیقی ضرورت پیش آ جائے تو ایک گھر میں رہتے ہوئے بھی دیکھنے میں مضائقہ نہیں ہے۔ امام غزالی اور ابن حجر عسقلانی نے بھی روایات سے قریب قریب یہی نتیجہ اخذ کیا ہے۔ شو لکا نی نیل لاوطار میں ابن حجر کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ ’’ جواز کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ عورتوں کے باہر نکلنے کے معاملے میں ہمیشہ جواز ہی پر عمل رہا ہے۔ مسجدوں میں ، بازاروں میں ، اور سفروں میں عورتیں تو نقاب منہ پر ڈال کر جاتی تھیں کہ مرد ان کو نہ دیکھیں ، مگر مردوں کو کبھی یہ حکم نہیں دیا گیا کہ وہ بھی نقاب اوڑھیں تاکہ عورتیں ان کو نہ دیکھیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں کے معاملے میں حکم مختلف ہے ‘‘ (جلد6۔ صفحہ 101)۔ تاہم یہ کسی طرح بھی جائز نہیں ہے کہ عورتوں اطمینان سے مردوں کو چھوڑیں اور ان کے حسن سے آنکھیں سینکیں۔