اس رکوع کو چھاپیں

سورة النور حاشیہ نمبر۳

اولین چیز جو اس آیت میں قابل توجہ ہے وہ یہ کہ یہاں فوجداری قانون کو ’’ دین اللہ‘‘ فر مایا جا رہا ہے۔ معلوم ہوا کہ صرف نماز اور روزہ اور حج و زکوٰۃ ہی دین نہیں ہیں ، مملکت کا قانون بھی دین ہے۔ دین کو قائم کرنے کا مطلب صرف نماز ہی قائم کرنا نہیں ہے بلکہ اللہ کا قانون اور نظام شریعت قائم کرنا بھی ہے۔ جہاں یہ چیز قائم نہ ہو وہاں نماز اگر قائم ہو بھی تو گویا ادھورا دین قائم ہوا۔ جہاں اس کو رد کر کے دوسرا کوئی قانون اختیار کیا جائے وہاں کچھ اور نہیں کود دین اللہ رد کر دیا گیا۔
دوسری چیز جو اس میں قابل توجہ ہے وہ اللہ تعالیٰ کی یہ تنیہ ہے کہ زانی اور زانیہ پر میری تجویز کردہ سزا نافذ کرنے میں مجرم کے لیے رحم اور شفقت کا جذبہ تمہارا ہاتھ نہ پکڑے۔ اس بات کو اور زیادہ کھول کر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس حدیث میں بیان فرمایا : یؤتیٰ بوالٍ نقص من الحد سو طافیقال لہ لِمَ فعلت ذٰلک ؟ فیقول رحمۃ لعبادک فیال لہ انت ارحم بہم منی؟ فیومر بہٖ الی النار۔ و یؤتیٰ بمن زاد سو طافیقال لہ لم فعلت ذاک؟ فیقول لینتھوا عن معاصیک۔ فیقول انت احکم بہم منی؟ فیومربہٖ الی النار۔ ’’ قیامت کے روز ایک حاکم لایا جائے گا جس نے حد میں سے ایک کوڑا کم کر دیا تھا۔ پوچھا جائے گا یہ حرکت تو نے کیوں کی تھی؟ وہ عرض کرے گا آپ کے بندوں پر رحم کھا کر۔ ارشاد ہو گا  اچھا، تو ان کے حق میں مجھ سے زیادہ رحیم تھا ! پھر حکم ہو گا لے جاؤ اسے دوزخ میں۔ ایک اور حاکم لایا جائے گا جس نے حد پر ایک کوڑے کا اضافہ کر دیا تھا۔ پوچھا جائے گا تو نے یہ کس لیے کیا تھا ؟ وہ عرض کرے گا تاکہ لوگ آپ کی نافرمانیوں سے باز رہیں۔ ارشاد ہو گا اچھا، تو ان کے معاملے میں مجھ سے زیادہ حکیم تھا ! پھر حکم ہو گا لے جاؤ اسے دوزخ میں ‘‘ (تفسیر کبیر۔ ج 6۔ ص 225) یہ تو اس صورت میں ہے جب کہ کمی بیشی کا عمل رحم یا مصلحت کی بنا پر ہو۔ لیکن اگر کہیں احکام میں رد و بدل مجرموں کے مرتبے کی بنا پر ہونے لگے تو پھر یہ ایک بد ترین جرم ہے۔ صحیحین میں سے حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے خبطہ میں فرمایا ’’ لوگو، تم سے پہلے جو امتیں گزری ہیں وہ ہلاک ہو گئیں اس لیے کہ جب ان میں کوئی عزت والا چوری کرتا تو وہ اسے چھوڑ دیتے تھے اور جب کوئی کمزور آدمی چوری کرتا تو اس پر حد جاری کرتے تھے ‘‘ ایک اور روایت میں ہے کہ حضورؐ نے فرمایا ’’ایک حد جاری کرنا اہل زمین کے  لیے چالیس دن کی بارش سے زیادہ مفید ہے ‘‘ (نسائی و ابن ماجہ)۔
بعض مفسرین نے اس آیت کا مطلب یہ لیا ہے کہ مجرم کو جرم ثابت  ہونے کے بعد چھوڑ نہ دیا جائے اور نہ سزا میں کمی کی جائے ، بلکہ پورے سو کوڑے مارے جائیں۔ اور بعض نے یہ مطلب لیا ہے کہ ہلکی مار نہ ماری جائے جس کی کوئی تکلیف ہی مجرم محسوس نہ کرے۔ آیت کے الفاظ دونوں مفہوموں پر حاوی ہیں ، بلکہ حق یہ ہے کہ دونوں ہی مراد معلوم ہوتے ہیں۔ اور مزید براں یہ مراد بھی ہے کہ زانی کو وہی سزا دی جائے جو اللہ نے تجویز فرمائی ہے ، اسے کسی اور سزا سے نہ بدل دیا جائے۔ کوڑوں کے بجائے کوئی اور سزا دینا اگر رحم اور شفقت کی بنا پر ہو تو معصیت ہے ، اور اگر اس خیال کی بنا پر ہو کہ کوڑوں کی سزا یک وحشیانہ سزا ہے تو یہ قطعی کفر ہے جو ایک لمحہ کے لیے بھی ایمان کے ساتھ ایک سینے میں جمع نہیں ہو سکتا۔ خدا کو خدا بھی ماننا اور اس کو معاذ اللہ وحشی بھی کہنا صرف ان ہی لوگوں کے لیے ممکن ہے جو ذلیل ترین قسم کے منافق ہیں۔