اس رکوع کو چھاپیں

سورة النور حاشیہ نمبر۲۹

 اس میں الفاظ ہیں : یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِھِمْ۔ غَضّ کے معنی ہیں کسی چیز کو کم کرنے ، گھٹانے اور پست کرنے کے۔ غَضِّ بصر کا ترجمہ عام طور پر نگاہ نیچی کرنا یا رکھنا کیا جاتا ہے۔ لیکن در اصل اس حکم کا مطلب ہر وقت نیچے ہی دیکھتے رہنا نہیں ہے ، بلکہ پوری طرح نگاہ بھر کر نہ دیکھنا ، اور نگاہوں کو دیکھنے کے لیے بالکل آزادانہ چھوڑ دینا ہے۔ یہ مفہوم ’’ نظر بچانے ‘‘ سے ٹھیک ادا ہوتا ہے ، یعنی جس چیز کو دیکھنا مناسب نہ ہو اس سے نظر ہٹا لی جائے ، قطع نظر اس سے کہ آدمی نگاہ نیچی کرے یا کسی اور طرف اسے بچا لے جائے۔ مِنْ اَبْسَارِھِمْ میں مِنْ  تبعیض کے لیے ہے ، یعنی حکم تمام نظروں کو بچانے کا نہیں ہے بلکہ بعض نظروں کو بچانے کا ہے۔ با لفاظ دیگر اللہ تعالیٰ کا منشا یہ نہیں ہے کہ کسی چیز کو بھی نگاہ بھر کر نہ دیکھا جائے ، بلکہ وہ صرف ایک مخصوص دائرے میں نگاہ پر یہ پابندی عائد کرنا چاہتا ہے۔ اب یہ بات سیاق و سباق سے معلوم ہوتی ہے کہ یہ پابندی جس چیز پر عائد کی گئی ہے وہ چاہے مردوں کا عورتوں کو دیکھنا، یا دوسرے لوگوں کے ستر پر نگاہ ڈالنا، یا فحش مناظر پر نگاہ جمانا۔
کتاب اللہ کے اس حکم کی جو تشریح سنت نے کی ہے اس کی تفصیلات حسب ذیل ہیں :
1 : آدمی کے لیے یہ بات حلال نہیں ہے کہ وہ اپنی بیوی یا اپنی محرم خواتین کے سوا کسی دوسری عورت کو نگاہ بھر کر دیکھے۔ ایک دفعہ اچانک نظر پڑ جائے تو وہ معاف ہے ، لیکن یہ معاف نہیں ہے کہ آدمی نے پہلی نظر میں جہاں کوئی کشش محسوس کی ہو وہاں پھر نظر دوڑائے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس طرح کی دیدہ بازی کو آنکھ کی بد کاری سے تعبیر فرمایا ہے۔ آپ کا ارشاد ہے کہ آدمی اپنے تمام حواس سے زنا کرتا ہے۔ دیکھنا آنکھوں کی زنا ہے۔ لگاوٹ کی بات چیت زبان کی زنا ہے۔ آواز سے لذت لینا کانوں کی زنا ہے۔ ہاتھ لگانا اور ناجائز مقصد کے لیے چلنا ہاتھ پاؤں کی زنا ہے۔ بد کاری کی یہ ساری تمہیدیں جب پوری ہو چکتی ہیں تب شرم  گاہیں یا تو اس کی تکمیل کر دیتی ہیں ، یا تکمیل کرنے سے رہ جاتی ہیں (بخاری ، مسلم، ابو داؤد)۔ حضرت بُرَیدَہ کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت علیؓ سے فرمایا یَا علی لا تتبع النظرۃ النظرۃ نان لک الاولی ولیست لک ا لاٰخرۃ، ’’ اے علی ایک نظر کے بعد دوسرے نظر نہ ڈالنا۔ پہلی نظر تو معاف ہے مگر دوسری معاف ہیں ‘‘(احمد، ترمذی ، ابو داؤد ، دارمی)۔ حضرت جریر بن بد اللہ  بَجَلِی کہتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا اچانک نگاہ پڑ جائے تو کیا کروں۔ فرمایا فوراً نگاہ پھیر لو ، یا نیچی کر لو(مسلم، احمد، ترمذی، ابو داؤد ، نسائی)۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضورؐ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ان النظر سہم من سھام ابلیس مسموہِ ، من تکھا مخافتی ابد لتہ ایمانا ایمانا یجد حلاوتۃ فی قلبہٖ ’’ نگاہ ابلیس کے زہریلے تیروں میں سے ایک تیر ہے ، جو شخص مجھ سے ڈر کر اس کو چھوڑ دے گا میں سے کے بدلے اسے ایسا ایمان دوں گا جس کی حلاوت وہ اپنے دل میں پائے گا (طبرانی)۔ ابو امامہ کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا : مامن مسلم ینظر ا الیٰ محاسن امرأۃ ثم یغض بصرہ الا اخلف اللہ لہ عبادۃ یجد حلاوتھا، ’’ جس مسلمان کی نگاہ کسی عورت کے حسن پر پڑے اور وہ نگاہ ہٹا لے تو اللہ اس کی عبادت میں لطف اور لذت پیدا کر دیتا ہے ‘‘ (مسند احمد)۔ امام جعفر صادق اپنے والد امام محمد باق سے اور وہ حضرت جابر بن عبد اللہ انصاری سے روایت کرتے ہیں کہ حجۃ الوداع کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے چچا زاد بھائی فضل بن عباسؓ (جو اس وقت ایک نوجوان لڑکے تھے ) مَشْعِرَ حرام سے واپسی کے وقت حضورؐ کے ساتھ اونٹ پر سوار تھے۔ راستے سے جب عورتیں گزرنے لگیں تو فضل ان کی طرف دیکھنے لگے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے منہ پر ہاتھ رکھا اور اسے دوسری طرف پھیر دیا (ابو داؤد)۔ اسی حجۃ الوداع کا قصہ ہے کہ قبیلہ  خَثْعَم کی ایک عورت راست میں حضورؐ کو روک کر حج کے متعلق ایک مسئلہ پوچھنے لگی اور فضل بن عباس نے اس پر نگاہیں گاڑ دیں۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کا منہ پکڑی کر دوسری طرف کر دیا۔ (بخاری، ابو داؤد ، ترمذی)۔
2: اس سے کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ عورتوں کو کھلے منہ پھر نے کی عام اجازت تھی تبھی تو غضِّ بصر کا حکم دیا گیا، ورنہ اگر چہرے کا پردہ رائج کیا جا چکا ہوتا تو پھر نظر بچانے یا نہ بچانے کا کیا سوال۔ یہ استدلال عقلی حیثیت سے بھی غلط ہے اور واقعہ کے اعتبار سے بھی۔ عقلی حیثیت سے یہ اس لیے غلط ہے کہ چہرے کا پردہ عام طور پر رائج ہو جانے کے باوجود ایسے مواقع پیش آ سکتے ہیں جبکہ اچانک کسی عورت اور مرد کا آمنا سامنا ہو جائے۔ اور ایک پردہ دار عورت کو بھی بسا اوقات ایسی ضرورت لاحق ہو سکتی ہے کہ وہ منہ کھولے۔ اور مسلمان عورتوں میں پردہ رائج ہونے کے باوجود بہر حال غیر مسلم عورتیں تو بے پردہ ہی رہیں گی۔ لہٰذا محض غضِّ بصر کا حکم اس بات کی دلیل نہیں بن سکتا کہ یہ عورتوں کے کھلے منہ پھرنے کو مسْتَلزم ہے۔ اور واقعہ کے اعتبار سے یہ اس لیے غلط ہے کہ سورہ احزاب میں احکام حجاب بازل ہونے کے بعد جو پردہ مسلم معاشرے میں رائج کیا گیا تھا اس میں چہرے کا پردہ شامل تھا اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد مبارک میں اس کا رائج ہونا بکثرت روایات سے ثابت ہے۔ واقعہ افک کے متعلق حضرت عائشہ کا بیان جو نہایت معتبر سندوں سے مروی ہے اس میں وہ فرماتی ہیں کہ جنگل سے واپس آ کر جب میں نے دیکھا کہ قافلہ چلا گیا ہے تو میں بیٹھ گئی اور نیند کا غلبہ ایسا ہوا کہ وہیں پڑ کر سوگئی۔ صبح کو صفوان بن مُعطّل وہاں سے گزرا تو دور سے کسی کو پڑے دیکھ کر ادھر آ گیا۔ فعر فنی حین راٰنی وکان قد راٰنی قبل الحجاب فاستیقظت باستر جاعہ حین عر فنی فخمرت وجھی بجلبابی، ’’وہ مجھے دیکھتے ہی پہچان گیا کیونکہ حجاب کے حکم سے پہلے وہ مجھے دیکھ چکا تھا۔ مجھے پہچان کر جب اس نے انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھا تو اس کی آواز سے مری آنکھ کھل گئی اور میں نے اپنی چادر سے منہ ڈھانک لیا‘‘۔ (بخاری، مسلم، احمد، ابن جریر ، سیرت ابن ہشام)ابو داؤد ، کتاب الجہاد میں ایک واقعہ مذکور ہے کہ ایک خاتون اُم خلّاد کا لڑکا ایک جنگ میں شہید ہو گیا تھا۔ وہ اس کے متعلق دریافت کرنے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئیں ، مگر اس حال میں بھی چہرے پر نقاب پڑی ہوئی تھی۔ بعض صحابہ نے حیرت کے ساتھ کہا کہ اس وقت بھی تمہارے چہرے پر نقاب ہے ؟ یعنی بیٹے کی شہادت کی خبر سن کر تو ایک ماں کو تن بدن کا ہوش نہیں رہتا، اور تم اس اطمینان کے ساتھ با پردہ آئی ہو۔ جواب میں کہنے لگیں : ان ارزأ ابنی فلن ارزأ حیائی ، ’’ میں نے بیٹا تو ضرور کھو یا ہے مگر اپنی حیا تو نہیں کھودی‘‘۔ ابو داؤد ہی میں حضرت عائشہ کی رویت ہے کہ ایک عورت نے پردے کے پیچھے سے ہاتھ بڑھا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو درخواست دی۔ حضورؐ نے پوچھا یہ عورت کا ہاتھ ہے یا مرد کا؟ اس نے عرض کیا عورت ہی کا ہے۔ فرمایا ’’ عورت کا ہاتھ ہے تو کم از کم ناخن ہی مہندی سے رنگ لیے ہوتے ‘‘۔ رہے حج کے موقع کے وہ دو واقعات جن کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے تو وہ عہد نبوی میں چہرے کا پردہ نہ ہونے کی دلیل نہیں بن سکتے ، کیونکہ احرام کے لباس میں نقاب کا استعمال ممنوع ہے۔ تاہم اس حالت میں بھی محتاط خواتیں غیر مردوں کے سامنے چہرہ کھول دینا پسند نہیں کرتی تھیں۔ حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ حجۃ الوداع کے سفر میں ہم لوگ بحالت احرام مکہ کی طرف جا رہے تھے۔ جب مسافر ہمارے پاس سے گزرنے لگتے تو ہم عورتوں اپنے سر سے چادریں کھینچ کر منہ پر ڈال لیتیں ، اور جب وہ گزر جاتے تو ہم منہ کھول لیتی تھیں ‘‘ (ابو داؤد ، باب فی المحرمۃ تغطّی وجھہا)۔
3 : غضّ بصر کے اس حکم سے مستثنیٰ صرف وہ صورتیں ہیں جن میں کیس عورت کو دیکھنے کی کوئی حقیقی ضرورت ہو۔ مثلاً کوئی شخص کسی عورت سے نکاح کرنا چاہتا ہو۔ اس غرض کے لیے عورت کو دیکھ لینے کی نہ صرف اجازت ہے ، بلکہ ایسا کرنا کم از کم مستحب تو ضرور ہے۔ مغیرہؓ بن شعبہ کی روایت ہے کہ میں نے ایک جگہ نکاح کا پیغام دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا تم نے لڑکی کو دیکھ بھی لیا ہے۔ میں نے عرض کیا نہیں۔ فرمایا : النظر الیھا فانہ احری ان یُؤدِم بیجکما ، ’’ اسے دیکھ لو۔ اس طرح زیادہ توقع کی جا سکتی ہے کہ تمہارے درمیان موافقت ہو گی‘‘ (احمد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ ، دارمی )۔ ابو ہریرہؓ کی روایت ہے کہ ایک شخص نے کہیں شادی کا پیغام دیا۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : انظر الیھا فان فی اعین الانصر شیئاً ، ’’ لڑکی کو دیکھ لو، کیونکہ انصار کی آنکھوں میں کچھ خرابی ہوتی ہے ‘‘(مسلم، نسائی، احمد)۔ جابرؓ بن عبد اللہ کہتے ہیں کہ حضورؐ نے فرمایا :اذا خطب احد کم المرأۃ فَقَدَرَاَن یریٰ منھا بعض ما ید عوہ الیٰ نکاحھا فلیفعل، ’’ تم میں سے جب کوئی شخص کسی عورت سے نکاح کا خواستگار ہو تو حتی الامکان اسے دیکھ کر یہ اطمینان کر لینا چاہیے کہ آیا عورت میں ایسی کوئی خوبی ہے جو اس کے ساتھ نکاح کی طرف راغب کرنے والی ‘‘(احمد ، ابو داؤد)۔ مسند احمد میں ابو حُمَیدَہ کی روایت ہے کہ حضورؐ نے اس غرض کے لیے دیکھنے کی اجازت کو : فلاجناح علیہ کے الفاظ میں بیان کیا، یعنی ایسا کر لینے میں مضائقہ نہیں ہے۔ نیز اس کی بھی اجازت دی کہ لڑکی کی بے خبری میں بھی اس کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اسی سے فقہاء نے یہ قاعدہ اخذ کیا ہے کہ بضرورت دیکھنے کی دوسری صورتیں بھی جائز ہیں۔ مثلاً تفتیش جرائم کے کے سلسلے میں کسی مشتبہ عورت کو دیکھنا ، یا عدالت میں گواہی کے موقع پر قاضی کا کسی گواہ عورت کو دیکھنا، یا علاج کے لیے طبیب کا مریضہ کو دیکھنا وغیرہ۔
4 : غضِّ بصر کے حکم کا منشا یہ بھی ہے کہ آدمی کسی عورت یا مرد کے ستر پر نگاہ نہ ڈالے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے : لا ینظر الرجل الیٰ عورۃ الرجل ولا تنظر المأۃ الیٰ عورۃ مرأۃ ، ’’ کوئی مرد کسی مرد کے ستر کو نہ دیکھے ، اور کوئی عورت کسی عورت کے ستر کو نہ دیکھے ‘‘ (احمد، مسلم، ابوداؤد، ترمذی )۔ حضرت علی کی روایت ہے کہ حضورؐ نے مجھ سے فرمایا لاتنظر الیٰ فخذحی ولا میت ، ’’ کسی زندہ یا مردہ انسان کی ران پر نگاہ نہ ڈالو‘‘ (ابو داؤد، ابن ماجہ )۔