اس رکوع کو چھاپیں

سورة النور حاشیہ نمبر۲۳

 سورے کے آغاز میں جو احکام دیے گئے تھے وہ اس لیے تھے کہ معاشرے میں برائی رو نما ہو جائے تو اس کا تدارک کیسے کیا جائے۔ اب وہ احکام دیے جا رہے ہیں جن کو مقصد یہ ہے کہ معاشرے میں سرے سے برائیوں کی پیدائش ہی کو روک دیا جائے اور تمدن کے طور طریقوں کی اصلاح کر کے ان اسباب کا سد باب کر دیا جائے  جن سے اس طرح کی خرابیاں رونما ہوتی ہیں۔ ان احکام کا مطالعہ کرنے سے پہلے دو باتیں اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہییں :
اول یہ کہ واقعہ افک پر تبصرہ کرنے کے معاً بعد یہ احکام بیان کرنا صاف طور پر اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تشخیص میں زوجہ رسول جیسی بلند شخصیت پر ایک صریح بہتان کا اس طرح معاشرے کے اندر نفوذ کر جانا در اصل ایک شہوانی ماحول کی موجودگی کا نتیجہ تھا، اور اللہ تعالیٰ کے  نزدیک اس شہوانی ماحول کو بدل دینے کی کوئی صورت اس کے سوا نہ تھی کہ لوگوں کا ایک دوسرے کے گھروں میں بے تکلف آنا جانا بند کیا جائے ، اجنبی عورتوں اور مردوں کو ایک دوسرے کی دید سے اور آزادانہ میل جول سے روکا جائے ، عورتوں کو ایک قریبی حلقے کے سوا غیر محرم رشتہ دروں اور اجنبیوں کے سامنے زینت کے ساتھ آنے سے منع کر دیا جائے ، قحبہ گری کے پیشے کا قطعی انسداد کیا جائے ، مردوں اور عورتوں کو زیادہ دیر تک مجرد نہ رہنے دیا جائے ، اور لونڈی غلاموں تک کے تجرد کا مداوا کیا جائے۔ دوسرے الفاظ میں یوں سمجھیے کہ عورتوں کی بے پر دگی، اور معاشرے میں بکثرت لوگوں کا مجرد رہنا ، اللہ تعالیٰ کے علم میں وہ بنیادی اسباب ہیں جن سے اجتماعی ماحول میں ایک غیر محسوس شہوانیت ہر وقت ساری و جاری رہتی ہے اور اسی شہوانیت کی بدولت لوگوں کی آنکھیں ، ان کے کان، ان کی زبانیں ، ان کے دل ، سب کے سب کسی واقعی یا خیالی فتنے (Scandal) میں پڑنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ اس خرابی کی اصلاح کے لیے اللہ تعالیٰ کی حکمت میں ان احکام سے زیادہ صحیح و مناسب اور مؤثر کوئی دوسری تدبیر نہ تھی ، ورنہ وہ ان کے سوا کچھ دوسرے احکام دیتا۔
دوسری بات جو اس موقع پر سمجھ لینی چاہیے وہ یہ ہے کہ شریعت الٰہی کسی برائی کو محض حرام کر دینے ، یا اسے جرم قرار دے کر اس کی سزا مقرر کر دینے پر اکتفا نہیں کرتی، بلکہ وہ ان اسباب کا بھی خاتمہ کر دینے کی فکر کرتی ہے جو کسی شخص کو اس برائی میں مبتلا ہونے پر اکساتے ہوں ، یا اس کے لیے مواقع بہم پہنچاتے ہوں ، یا اس پر مجبور کر دیتے ہوں۔ نیز شریعت جرم کے ساتھ اسباب جرم، محرکات جرم اور رسائل و ذرائع جرم پر بھی پا بندیا ں لگاتی ہے ، تاکہ آدمی کو اصل جرم کی عین سرحد پر پہنچنے سے پہلے کافی فاصلے ہی پر روک دیا جائے۔ وہ اسے پسند نہیں کرتی کہ لوگ ہر وقت جرم کی سرحدوں پرٹہلتے رہیں اور روز پکڑے جائیں اور سزائیں پایا کریں۔ وہ صرف محتسب (Prosecutor) ہی نہیں ہے بلکہ ہمدرد، مصلح اور مدد گار بھی ہے ، اس لیے وہ تمام تعلیمی، اخلاقی اور معاشرتی تدابیر اس غرض کے لیے استعمال کرتی ہے کہ لوگوں کو برائیوں سے بچنے میں  مدد دی جائے۔