اس رکوع کو چھاپیں

سورة النور حاشیہ نمبر۲

اس مسئلے کے بہت سے قانونی، اخلاقی اور تاریخی پہلو تشریح طلب ہیں جن کو اگر تفصیل کے ساتھ بیان نہ کیا جائے تو موجودہ زمانے میں ایک آدمی کے لیے اس تشریعِ الہٰی کا سمجھنا مشکل ہے۔ اس لیے ذیل میں ہم اس کے مختلف پہلوؤں پر سلسلہ وار روشنی ڈالیں گے:
(۱) زنا کا عام مفہوم ، جس سے ہر شخص واقف ہے، یہ ہے ”ایک مرد اور ایک عورت ، بغیر اس کے کہ ان کے درمیان جائز رشتۂ زن و شو ہو، باہم مباشرت کا ارتکاب کریں“۔ اس فعل کا اخلاقًا برا ہونا، یا مذہبًا گناہ ہونا ، یا معاشرتی حیثیت سے معیوب  اور قابلِ اعتراض ہونا ، ایک ایسی چیز ہے جس پر قدیم ترین زمانے سے آج تک تمام انسانی معاشرے متفق رہے ہیں، اور اس میں بجز اُن متفرق لوگوں کے جنہوں نے اپنی عقل کو اپنی نفس پرستی کے تابع کر دیا ہے، یا جنہوں نے خبطی پن کی اُپچ کو فلسفہ طرازی سمجھ رکھا ہے ، کسی نے آج تک اختلاف نہیں کیا ہے۔ اس عالمگیر اتفاقِ رائے کی وجہ  یہ ہے کہ انسانی فطرت خود زنا کی حرمت کا تقاضا کرتی ہے۔ نوع انسانی کا بقاء اور انسانی تمدّن کا قیام ، دونوں اس بات پر منحصر ہیں کہ عورت اور مرد محض لطف اور لذت کے  لیے ملنے اور پھر الگ ہو جانے میں آزاد نہ ہوں، بلکہ ہر جوڑے کا باہمی تعلق ایک ایسے مستقل اور پائیدار عہد ِ وفا پر استوار ہو جو معاشرے میں معلوم و معروف بھی ہو اور  جسے معاشرے کی ضمانت بھی حاصل ہو۔ اس کے بغیر انسانی نسل ایک دن کے لیے بھی نہیں چل سکتی کیونکہ انسان کا بچہ اپنی زندگی اور اپنے انسانی نشونما کے لیے کئی برس کی درد مند انہ نگہداشت اور تربیت کا محتاج ہوتا ہے ، اور تنہا عورت اس بار کو اُٹھانے کے لیے کبھی تیار نہیں ہو سکتی جب تک کہ وہ مرد اس کا ساتھ نہ دے جو اس بچے کے وجود میں آنے کا سبب بنا ہو۔ اسی طرح اس معاہدے کے بغیر انسانی تمدّن بھی برقرار نہیں رہ سکتا، کیونکہ تمدّن کی تو پیدائش ہی ایک مرد اور ایک عورت کے مل کر رہنے ، ایک گھر اور ایک خاندان وجود میں لانے، اور پھر خاندانوں کے درمیان رشتے اور رابطے پیدا ہونے سے ہوئی ہے۔ اگر عورت اور مرد گھر اور خاندان کی تخلیق سے قطع نظر کر کے محض لطف و لذت کے لیے آزاد انہ ملنے لگیں تو سارے انسان بکھر کر رہ جائیں، اجتماعی زندگی کی جڑ کٹ  جائے ، اور وہ بنیاد ہی باقی نہ رہے جس پر تہذیب و تمدّن کی یہ عمارت اُٹھی ہے۔ ان وجوہ سے عورت اور مرد کا ایسا آزادانہ تعلق جو کسی معلوم و معروف اور مسلّم عہد و فا پر مبنی نہ ہو، انسانی فطرت کے خلاف ہے۔ انہی وجوہ سے انسان اِس کو ہر زمانے میں ایک سخت عیب ، ایک بڑی بد اخلاقی ، اور مذہبی اصطلاح میں ایک شدید گناہ سمجھتا رہا ہے۔ اور انہی وجوہ سے ہر زمانے میں انسانی معاشروں نے نکاح کی ترویج  کے ساتھ ساتھ زنا کے سدِّ باب کی بھی کسی نہ کسی  طور پر ضرور کوشش کی ہے۔ البتہ اس کوشش کی شکلوں میں مختلف قوانین اور اخلاقی و تمدنی اور مذہبی نظاموں میں فرق رہا ہے، جس کی بنیاد دراصل اس فرق پر ہے کہ نوع اور تمدن کے لیے زنا کے نقصان دہ ہونے کا شعور کہیں کم ہے اور کہیں زیادہ، کہیں واضح ہے اور کہیں دوسرے مسائل سے اُلجھ کر رہ گیا ہے۔
(۲)  زنا کی حُرمت پر متفق ہونے کے بعد اختلاف جس امر میں ہوا ہے وہ اس کے جرم ، یعنی قانونًا مستلزمِ سزا ہونے کا مسئلہ ہے، اور یہی وہ مقام ہے جہاں سے اسلام اور دوسرے مذاہب اور قوانین کا اختلاف شروع ہوتا ہے۔ انسانی فطرت سے قریب جو معاشرے رہے ہیں ، انہوں نے ہمیشہ زنا، یعنی عورت اور مرد کے ناجائز تعلق کے بجائے خود ایک جرم سمجھا ہے اور اس کے لیے سخت سزائیں رکھی ہیں ۔ لیکن جوں جوں انسانی معاشروں کو تمدّن خراب کرتا گیا ہے، رویّہ نرم ہو تا چلا گیا ہے۔
اس معاملے میں اوّلین تساہُل ، جس کا ارتکاب بالعموم کیا گیا ، یہ تھا کہ ”محض زنا“(Fornication ) اور  ”زنا بزنِ غیر“(Adultery ) میں فرق کر کے ، اول الذکر کو ایک معمولی سی غلطی ، اور صرف مؤخر الذکر کو جرم مستلزم سزا قرار دیا گیا۔
محض زنا کی تعریف جو مختلف قوانین میں پائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ ”کوئی مرد، خواہ وہ کنوارا ہو یا شادی شدہ ، کسی ایسی  عورت سے مباشرت کرے جو کسی دوسرے شخص کی بیوی نہ ہو“۔ اس تعریف میں اصل اعتبار مرد کی حالت کا نہیں، بلکہ عورت کی حالت کا کیا گیا ہے۔ عورت اگر بے شوہر ہے تو اس سے مباشرت محض زنا ہے، قطع نظر اس سے کہ مرد بیوی رکھتا ہو یا نہ ہو۔ قدیم مصر، بابِل، آشور(اسیریا) اور ہندوستان کے قوانین میں اس کی سزا بہت ہلکی تھی۔ اسی قاعدے  کو یونان اور روم نے اختیار کیا ، اور اسی سے آخر کار یہودی بھی متاثر ہوگئے۔ بائیبل میں یہ صرف ایک ایسا قصور ہے جس سے مرد پر محض مالی تاوان واجب آتا ہے ۔ کتاب ”خروج“ میں اس کے متعلق جو حکم ہے اس کے الفاظ یہ ہیں:
” اگر کوئی آدمی کسی کنواری کو ، جس کی نسبت (یعنی منگنی) نہ ہوئی ہو  پھُسلا کر اس سے مباشرت کر لے تو وہ ضرور ہی اسے مہر دے کر اس سے بیاہ کرلے، لیکن اگر اس کا باپ ہر گز  راضی نہ ہو کہ اس لڑکی کو اُسے دے ، تو وہ کنواریوں کے مہر کے موافق (یعنی جتنا مہر کسی کنواری لڑکی کو دیا جاتا ہو) اسے نقدی دے“۔ (باب ۲۲۔ آیت ۱۶ – ۱۷)۔
کتاب ”استثناء“ میں یہی حکم ذرا مختلف الفاظ میں بیان ہوا ہے ، اور پھر تصریح کی گئِ ہے کہ مرد سے لڑکی کے باپ کے پچاس مثقال چاندی (تقریبًا ۵۵ روپے) تاوان  دلوایا جائے(باب ۲۲۔ آیت ۲۸ – ۲۹) البتہ اگر کوئی شخص کاہن (یعنی پروہت،Priest )  کی بیٹی سے زنا کرے تو اس کے  لیے یہودی قانون میں پھانسی کی سزا ہے، اور لڑکی کے لیے زندہ جلانے کی (Everyman’s Talmud, P. 319-20
”جو شخص اپنی ذات کی کنواری لڑکی سے اس کی رضامندی کے ساتھ زنا کرے وہ کسی سزا کا مستحق نہیں ہے۔ لڑکی کا باپ راضی   ہو تو وہ اس کو معاوضہ   دے کر شادی کر لے۔ البتہ اگر لڑکی اونچی ذات کی ہو اور مرد نیچ ذات کا تو لڑکی کو گھر سے نکال دینا چاہیے اور مرد کو قطع اعضا کی سزا دینی چاہیے“ (ادھیائے ۸ اشلوک ۳۶۵، ۳۶۶) اور یہ سزا زندہ جلادیے جانے کی سزا میں تبدیل کی جا سکتی ہے جبکہ لڑکی برہمن ہو (اشلوک ۳۷۷)۔
دراصل ان سب قوانین میں زنا بزنِ غیر ہی اصلی اور بڑا جرم تھا یعنی یہ کہ کوئی شخص (خواہ وہ شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ) کسی ایسی عورت سے مباشرت کرے جو دوسرے شخص کی بیوی ہو۔ اس فعل کے جرم ہونے کی بنیاد یہ نہ تھی کہ ایک مرد اور عورت نے زنا کا ارتکاب کیا ہے ، بلکہ یہ تھی کہ اُن دونوں نے مل کر ایک شخص کو اس خطرے میں مبتلا کر دیا ہے کہ اسے کسی ایسے بچے کو پالنا  پڑے جو اس کا نہیں ہے۔ گویا زنا نہیں بلکہ اختلاطِ نسب کا خطرہ اور ایک کے بچے کا دوسرے کے خر چ پر پلنا اور اس کا وارث ہونا اصل بنائے جرم تھا جس کی وجہ سے عورت اور مرد دونوں مجرم قرار پاتے تھے۔ مصریوں کے ہاں اس کی سزا یہ تھی کہ مرد کو لاٹھیوں سے خوب پیٹا جائے اور عورت کی ناک کاٹ دی جائے ۔ قریب قریب ایسی ہی سزائیں بابل، اشور، اور قدیم ایران  میں بھی رائج تھیں۔ ہندووں کے ہاں عورت کی سزا یہ تھی کہ اس کو کتوں  سے پھڑوا دیا جائے اور مرد کو یہ کہ اسے لوہے کے گرم پلنگ پر لٹا کر چاروں طرف آگ جلا دی جائے ۔ یونان اور روم میں ابتداءً ایک مرد کو یہ حق حاصل تھا کہ اگر وہ اپنی بیوی کے ساتھ کسی کو زنا کرتے دیکھ لے تو اسے قتل کر دے، یا چاہے تو  اس سے مالی تاوان حاصل کر لے۔ پھر پہلی صدی قبل مسیح میں قیصر آگسٹس  نے یہ قانون مقرر کیا کہ  مرد کی آدھی جائداد ضبط کر کے اسے جلا وطن کر دیا جائے ، اور عورت کا آدھا مہر ساقط  اور اس کی ۱/۳ جائداد ضبط کر کے اُسے بھی مملکت کے کسی دور دراز حصّے میں بھیج دیا جائے۔ قسطنطین نے اس قانون کو بدل کر عورت اور مرد دونوں کے لیے سزائے موت مقرر کی۔ لیو () اور مارسِیَن () کے دَور میں اِس سزا کو حبسِ دوام میں تبدیل کر دیا گیا۔ پھر قیصر جَسٹینِیَن نے اس میں مزید تخفیف کر کے یہ قاعدہ مقرر کر دیا کہ عورت کو کوڑوں سے پیٹ کر کسی راہب خانے میں ڈال دیا جائے اور اس کے شوہر کو یہ حق دیا جائے کہ چاہے تو دوسال کے اندر اسے  نکلوا لے، ورنہ ساری عم وہیں پڑا رہنے دے۔
یہودی  قانون میں زنا بزنِ غیر  کے متعلق جو احکام پائے جاتے ہیں وہ یہ ہیں:
”اگر کوئی کسی ایسی عورت سے صحبت کر ے جو لونڈی اور کسی شخص کی منگیتر ہو اور نہ تو اس کا فدیہ ہی دیا گیا ہو اور نہ وہ آزاد کی گئی ہو، تو ان دونوں کو سزا ملے، لیکن وہ جان سے نہ مارے جائیں اس لیے کہ عورت آزاد نہ تھی“۔ (احبار ۱۹ – ۲۰)۔
”جو شخص دوسرے کی بیوی سے ، یعنی اپنے ہمسائے کی بیوی سے زنا کرے وہ زانی اور زانیہ دونوں ضرور جان سے مار دیے جائیں“۔ (احبار ۲۰ – ۱۰)۔
”اگر کوئی مرد کسی شوہر والی عورت سے زنا کرتے ہوئے پکڑا جائے تو وہ دونوں مار ڈالے جائیں“۔(استثناء ۲۲ – ۲۲)۔
”اگر کوئی کنواری لڑکی کسی شخص سے منسُوب ہو گئی ہو۔ (یعنی اس کی منگنی ہو) اور کوئی دوسرا آدمی اسے شہر میں پا کر اس سے صحبت کرے تو تم اُن دونوں کو اس شہر کے پھاٹک پر نکال لانا اور ان کو تم سنگسار کر دینا کہ وہ مر جائیں۔ لڑکی کو اس لیے کہ وہ شہر میں ہوتے ہوئے نہ چلّائی اور مرد کو اس لیے کہ اس نے اپنے ہمسائے کی بیوی کو بے حرمت کیا۔ پر اگر اس آدمی کو وہی لڑکی جس کی نسبت ہو چکی ہو، کسی میدان یا کھیت میں مل جائے  اور وہ آدمی جبرًا اس سے صحبت کرے تو فقط وہ آدمی ہی جس نے صحبت کی مار ڈالا جائے پر  اس لڑکی سے کچھ نہ کرنا“۔ (استثناء ۲۲ – ۲۳ تا ۲۶)۔
لیکن حضرت عیسیٰ ؑ کے عہد سے بہت پہلے یہودی علماء ، فقہاء، امراء اور عوام ، سب اس قانون کو عملًا منسُوخ کر چکے تھے۔ یہ اگرچہ بائِبل میں لکھا ہوا تھا کہ خدائی حکم اسی کو سمجھا جاتا تھا ، مگر اسے عملًا نافذ کرنے کا کوئی روادار نہ تھا، حتیٰ کہ یہودیوں کی تاریخ میں ا س کی کوئی نظیر تک نہ پائِ جاتی تھی کہ یہ حکم کبھی نافذ کیا گیا ہو۔ حضرت عیسیٰ ؑ جب دعوتِ حق لے کراُٹھے اور علماء یہود نے دیکھا کہ اس سیلاب کو روکنے کی کوئی تدبیر کارگر نہیں ہو رہی ہے تو وہ ایک چال کے طور پر ایک زانیہ عورت کو آپ کے پاس پکڑ لائے اور کہا  اس کا فیصلہ فرمائیے (یوحنا باب ۸ ، آیت ۱ – ۱۱) ۔ اس سے ان کا مقصود یہ تھا کہ حضرت عیسیٰؑ  کو کنویں یا کھائی ، دونوں میں سے کسی ایک میں کودنے پر مجبور کردیں۔ اگر آپ  رجم کے سوا کوئی اور سزا تجویز کریں تو آپ کو یہ کہہ کر بدنام کیا جائے کہ لیجیے، یہ نرالے پیغمبر صاحب تشریف لائے ہیں جنہوں نے دنیوی  مصلحتوں کی خاطر خدائی قانون کو بدل ڈالا۔ اور اگر آپ رجم کا حکم دیں تو ایک طرف رومی قانون سے آپ کو ٹکرا دیا جائے اور دوسری طرف قوم سے کہا جائے کہ مانو ان پیغمبر صاحب کو، دیکھ لینا،  اب توراۃ کی پوری شریعت تمہاری پیٹھوں  اور جانوں پر برسے گی۔ لیکن حضرت عیسیٰؑ نے ایک ہی فقرے میں ان کی چال کو انہی پر اُلٹ دیا۔ آپ نے فرمایا تم میں سے جو خود پاک دامن ہو وہ آگے بڑھ کر اسے پتھر مارے ۔ یہ سُنتے ہی فقیہوں کی ساری بھیڑ  چھٹ گئی ، ایک ایک منہ چھپا کر رخصت ہو گیا ور ”حاملانِ شرعِ متین “ کی اخلاقی حالت بالکل برہنہ ہو کر رہ گئی ۔ پھر جب عورت تنہا کھڑی ہو گئی تو آپ نے اسے نصیحت فرمائی  اور توبہ کرا کے رخصت کر دیا، کیونکہ نہ آپ قاضی تھے کہ اس مقدمے کا فیصلہ کر تے، نہ اُس پر کوئی شہادت قائم ہو ئی تھی ،اور نہ کوئی اسلامی حکومت قانونِ الہٰی نافذ کرنے کے لیے موجود تھی۔
حضرت عیسیٰؑ کے اس واقعہ سے اور آپ کے چند اور متفرق اقوال سے جو مختلف مواقع پر آپ نے ارشاد فرمائے، عیسائیوں نے غلط استنباط کر کے زنا کے جرم کا ایک اور تصور قائم کر لیا۔ ان کے ہاں زنا اگر غیر شادی شدہ مرد، غیر شادی شدہ عورت سے کرتے تو یہ گناہ توہے، مگر جرم مستلزم سزا نہیں ہے۔ اور اگر اس فعل کا کوئی ایک فریق ، خواہ وہ عورت ہو یا مرد، شادی شدہ ہو ، یا دونوں شادی شدہ ہوں ، تو یہ جرم ہے، مگر اس کو جرم بنانے والی چیز دراصل ”عہد شکنی“ ہے نہ کہ محض زنا۔ ان کے نزدیک جس نے بھی شادی شدہ ہو کر زنا کا ارتکاب کیا وہ اس لیے مجرم ہے کہ اُس نے اُس عہدِ وفا کو توڑ دیا جو قربان گاہ کے سامنے اس نے پادری کے توسط سے اپنی بیوی یا اپنے شوہر کے ساتھ باندھا تھا۔ مگر اس جرم کی کوئی سزا اس کے سوا نہیں ہے کہ زانی مرد کی بیوی اپنے شوہر کے خلاف بے وفائی کا دعویٰ کر کے  تفریق کی ڈگری  حاصل کر لے اور زانیہ عورت کا شوہر ایک طر ف اپنی بیوی پر دعویٰ کر کے تفریق کی ڈگری لے اور دوسری طرف اُس شخص سے  بھی تاوان لینے کا حق دار ہو جس نے اس کی بیوی کو خراب کیا۔ بس یہ سزا ہے جو مسیحی قانون شادی شدہ زانیوں اور زانیات کو دیتا ہے ، اور غضب یہ ہے کہ یہ سزا بھی د و دھاری تلوار ہے۔ اگر ایک عورت اپنےشوہر کے خلاف”بے وفائی“ کا دعویٰ کر کے تفریق کی ڈگری حاصل کر لے تو وہ بے وفا شوہر سے تو نجات حاصل کر لے گی ،لیکن مسیحی قانون کی رو سے پھر وہ عمر بھر کوئی دوسرا نکاح نہ کر سکے گی۔ اور ایسا ہی حشر اُس مرد کا بھی ہو گا جو بیوی پر ”بے وفائی“ کا دعویٰ کر کے تفریق کی ڈگری لے، کیونکہ مسیحی قانون اس کو بھی نکاحِ ثانی کا حق نہیں دیتا۔ گویا زوجین میں سے جس کو بھی تمام عمر راہب بن کر رہنا  ہو وہ اپنے شریکِ زندگی کی بے وفائی کا شکوہ مسیحی عدالت میں لے جائے۔
موجودہ زمانے  کے مغربی قوانین، جن کی پیروی اب خود مسلمانوں کے بھی بیشتر ممالک کر رہے ہیں، انہی مختلف تصوّرات پر مبنی ہے۔ ان کے نزدیک زنا، عیب یا بد اخلاقی یا گناہ جو کچھ بھی ہو، جرم بہر حال نہیں ہے۔ اسے اگر کوئی چیز جرم بنا سکتی ہے تو وہ جبر ہے، جبکہ فریقِ ثانی کی مرضی کے خلاف زبر دستی اس سے مباشرت کی جائے۔ رہا کسی شادی شدہ مرد کا ارتکابِ زنا ، تو وہ اگر وجہ شکایت ہے تو اس کی بیوی کے لیےہے، وہ چاہے تو اس کا ثبوت دے کر طلاق حاصل کر لے۔ اور زنا کی مرتکب اگر شادی شدہ عورت ہے تو اس کے شوہر کو نہ صرف اس کے خلاف بلکہ زانی مرد کے خلاف بھی وجہ شکایت پیدا ہو تی ہے، اور دونوں پر دعویٰ کر کے وہ بیوی سے طلاق اور زانی مرد سے تاوان وصول کر سکتا ہے۔
(۳) اسلامی قانون ان سب تصورات کے برعکس زنا کو بجائے خود ایک جُرم مستلزم ِ سزا قرار دیتا ہے اور شادی شدہ ہو کر زنا کرنا اس کے نزدیک جرم کی شدت کو اور زیادہ بڑھا دیتا ہے، نہ اس بنا پر کہ مجرم نے کسی سے”عہد شکنی“ کی ، یا کسی دوسرے کے بستر پر دست درازی کی، بلکہ اس بنا پر کہ اس کے لیے  اپنی خواہشات کو پورا کرنے کا ایک جائز ذریعہ  موجود تھا اور پھر بھی  اس نے ناجائز ذریعہ اختیار کیا۔ اسلامی قانون زنا کو اس نقطۂ نظر سے دیکھتا ہے کہ یہ وہ فعل ہے کہ جس کی اگر آزادی ہو جائے تو ایک طرف نوعِ انسانی کی اور دوسری طرف تمدّنِ انسانی کی جڑ کٹ جائے۔ نوع کی بقا ء اور تمدّن کے قیام ، دونوں کے لیے ناگزیر ہے کہ عورت اور مرد کا تعلق صرف قانون کے مطابق قابلِ اعتماد رابطے تک محدود ہو۔ اور اسے محدود رکھنا ممکن نہیں ہے اگر اس کے  ساتھ ساتھ آزادانہ تعلق کی بھی کھلی گنجائش موجود رہے۔ کیونکہ گھر اور خاندان کی ذمہ داریوں کا بوجھ سنبھالے بغیر جہاں لوگوں کو خواہشاتِ نفس کی تسکین کے مواقع حاصل رہیں ، وہاں ان سے توقع نہیں کی جاسکتی کہ اِنہی خواہشات کی تسکین کے لیے وہ پھر اِتنی بھاری ذمہ داریوں کا بوجھ اُٹھانے پر آمادہ ہوں گے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے ریل میں بیٹھنے کے لیے ٹکٹ کی شرط  بے معنی ہے اگر بلا ٹکٹ سفر کرنے کی آزادی بھی لوگوں کو حاصل رہے۔ ٹکٹ کی شرط اگر ضروری ہے تو اسے مؤثر بنانے کے  لیے بلا ٹکٹ سفر کو جرم ہونا چاہیے ۔ پھر اگر کوئی شخص پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے  بے ٹکٹ سفر کرے تو کم درجے کا مجرم ہے، اور مالدار ہوتے ہوئے بھی یہ حرکت کرے تو جرم اور زیادہ سخت ہو جاتا ہے۔
(۴) اسلام انسانی معاشرے کو زنا کے خطرے سے بچانے کے لیے صرف قانونی تعزیر کے ہتھیار پر انحصار نہیں کر تا، بلکہ اس کے لیے وسیع پیمانے پر اصلاحی اور انسدادی تدابیر استعمال کرتا ہے ، اور یہ قانونی تعزیر اس نے محض ایک آخری چارہ ٔ کار کے طور پر تجویز کی ہے۔ اس کا منشا یہ نہیں ہے کہ لوگ اس جرم کا ارتکاب کرتے رہیں اور شب و روز ان پر کوڑے برسانے کے لیے ٹکٹکیاں لگی رہیں، بلکہ اس کا منشا یہ ہے کہ لوگ اس کا ارتکاب نہ کریں اور کسی کو اس پر سزا دینے کی نوبت ہی نہ آنے پائے۔ وہ سب سے پہلے آدمی کے نفس کی اصلاح کرتا ہے ، اس کے دل میں عالم الغیب اور ہمہ گیر طاقت کے مالک خدا کا خوف بٹھاتا ہے ، اُسے آخرت کی باز پرس کا احساس دلاتا ہے جس سے مر کر بھی پیچھا نہیں چھوٹ سکتا ، اُس میں قانونِ الہٰی کی اطاعت کا جذبہ پیدا کرتا ہے جو ایمان  کا لازمی تقاضا ہے ، اور پھر اسے بار بار متنبہ کرتا ہے کہ زنا اور بے عصمتی اُن بڑے گناہوں میں سے ہے جن پر اللہ تعالیٰ سخت باز پرس کرے گا۔  یہ مضمون  سارے قرآن میں جگہ جگہ آپ کے سامنے آتا ہے ۔ اس کے بعد وہ آدمی کے لیے نکاح کی تمام ممکن آسانیاں پیدا کرتا ہے ۔ ایک بیوی سے تسکین نہ ہو تو چار چار تک سے جائز تعلق کا موقع دیتا ہے۔ دل نہ ملیں  تو مرد کے لیے طلاق اور عورت کے لیے خلع کی سہولتیں بہم پہنچاتا ہے۔ اور ناموافقت کی صورت میں خاندانی پنچایت سے لے کر سرکاری عدالت تک سے رجوع کا راستہ کھول دیتا ہے تا کہ یا تو مصالحت ہو جائے، یا پھر زوجین ایک دوسرے سے آزاد ہو کر جہاں دل ملے نکاح کر لیں۔ یہ سب کچھ سورۂ بقرہ ، سورۂ نساء، اور سورۂ طلاق میں دیکھ سکتے ہیں۔ ااور اسی سورۂ نور میں آپ ابھی دیکھیں گے کہ مردوں اور عورتوں کے بن بیاہے بیٹھے رہنے کو ناپسند کیا گیا ہے اور صاف حکم دے دیا گیا ہے کہ ایسے لوگوں کے نکاح کر دیے جائیں، حتیٰ کہ لونڈیوں اور غلاموں کو بھی مجرد نہ چھوڑا جائے ۔ پھر وہ معاشرے سے اُن اسباب کا خاتمہ کرتا ہے جو زنا کی رغبت دلانے والے، اس کی تحریک کرنے والے، اور اس کے لیے مواقع پیدا کرنے والے ہو سکتے ہیں۔ زنا کی سزا بیان کرنے سے ایک سال پہلے سورۂ احزاب میں عورتوں کو حکم دے دیا گیا  تھا کہ گھر سے نکلیں تو چادریں اوڑھ کر  اور گھونگھٹ ڈال کر نکلیں، اور مسلمان عورتوں کے  لیے جس نبی کا گھر نمونے کا گھر تھا اس کی عورتوں  کو ہدایت کر دی گئی تھی کہ گھروں میں وقار و سکنیت  کے ساتھ بیٹھو، اپنے حسن اور بناؤ سنگھار کی نمائش  نہ کرو، اور باہر کے مرد تم سے کوئی چیز لیں تو پردے کے پیچھے سے لیں۔ یہ نمونہ دیکھتے دیکھتے اُن تمام صاحب ایمان عورتوں  میں پھیل گیا جن کےنزدیک زمانۂ جاہلیت کی بے حیا عورتیں نہیں بلکہ نبیؐ کی بیویاں اور بیٹیاں تقلید کے لائق تھیں۔ اس طرح فوجداری قانون کی سزا مقرر کرنے سےپہلے عورتوں اور مردوں کی خلط ملط معاشرت بند کی گئی، بنی سنوری عورتوں کا باہر نکلنا  بند کیا گیا، اور ان اسباب و ذرائع کا دروازہ بند کر دیا گیا جو زنا کے مواقع اور اس کی آسانیاں بہم پہنچاتے ہیں۔ ان سب کے  بعد جب زنا کی فوجداری سزا مقرر کی گئی تو آپ دیکھتے ہیں کہ اس کے ساتھ ساتھ  اسی سورۂ نور میں اشاعتِ فحش کو بھی روکا جا رہا ہے، قحبہ گری (Prostitution ) کی قانونی بندش بھی کی جا رہی ہے، عورتوں اور مردوں پر بدکاری کے بے ثبوت الزام لگانے اور ان کے چرچے کرنے کے لیے بھِ سخت سزا تجویز کی جا رہی ہے ، غضِّ    بصر کا حکم دے کر نگاہوں پر پہرے بھی بٹھائے  جا رہے ہیں تا کہ دیدہ بازی سے حسن پرستی تک اور حسن پرستی سے عشق بازی تک نوبت نہ پہنچے، اور عورتوں کو یہ حکم بھی دیا جا رہا ہے کہ اپنے گھروں میں محرم اور غیر محرم  رشتہ داروں کے درمیان تمیز کریں اور غیر محرموں کے سامنے بن سنور کر نہ آئیں۔ اس سے آپ اُس پوری اصلاحی سکیم کو سمجھ سکتے ہیں جس کے ایک جُز کے طور پر زنا کی قانونی سزا مقرر کی گئی ہے۔ یہ سزا اس لیے ہے کہ تمام داخلی و خارجی تدابیرِ اصلاح کے باوجود جو شریر النفس لوگ کھلے ہوئے جائز مواقع کو چھوڑ کرنا جائز طریقے سے ہی اپنی خواہشِ نفس پوری کرنے پر اصرار کریں ان کی کھال اُدھیڑ دی جائے، اور ایک بدکار کو سزا دے کر معاشرے کے اُن بہت سے لوگوں کا نفسیاتی آپریشن کر دیا جائے جو اس طرح کے میلانات رکھتے ہوں۔ یہ سزا محض ایک مجرم کی عقوبت ہی نہیں ہے بلکہ اس امر کا بالفعل اعلان بھی ہے  کہ مسلم معاشرہ  بدکاروں کی تفریح گاہ نہیں ہے جس میں ذوّاقین اور ذوّاقات اخلاقی قیود سے آزاد ہو کر مزے لوٹتے پھریں۔ اس نقطۂ نظر سے کوئی شخص اسلام کی اس اصلاحی اسکیم کو سمجھے تو وہ بآسانی محسوس کرلے گا کہ اس پوری اسکیم کا ایک جُز بھی  اپنی جگہ سے نہ ہٹایا جا سکتا ہے اور نہ کم و بیش کیاجا سکتا ہے۔ اس میں ردّو بدل کا خیال یا تو وہ نادان کر سکتا ہے جو اسے سمجھنے  کی صلاحیت رکھے بغیر مُصلح بن بیٹھا ہو ، یا پھر وہ مفسد ایسا کر سکتا ہے جس کی اصل نیت اُس مقصد  کو بدل دینے کی ہو جس کے لیے یہ اسکیم حکیمِ مطلق نے تجویز کی ہے۔
(۵) زنا کو قابلِ سزا فعل تو سن ۳ ھجری میں ہی قرار دے دیا گیا تھا، لیکن اُس وقت یہ ایک ”قانونی“ جرم نہ تھا جس پر ریاست کی پولیس اور عدالت کوئی کارروائی  کرے، بلکہ اس کی حیثیت ایک ”معاشرتی“ یا”خاندانی“ جرم کی سی تھی جس پر اہلِ خاندان ہی کو بطورِ خود سزا دے لینے کا اختیار تھا۔ حکم یہ تھا کہ اگر چار گواہ اِس امر کی شہادت دے دیں کہ انہوں نے ایک مرد اور ایک عورت کو زنا کرتے ہوئے دیکھا ہے تو دونوں کو مارا پیٹا جائے ، اور عورت کو گھر میں قید کر لیا جائے۔ اس کے ساتھ یہ اشارہ بھی کر دیا گیا تھا کہ یہ قاعدہ”تا حکمِ ثانی“ ہے، اصل قانون بعد میں آنے والا ہے (ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اوّل ، صفحہ ۳۳۱)۔ اس کے ڈھائی  تین سال بعد یہ حکم نازل ہوا  جو آپ اس آیت میں پا رہے ہیں، اور اس نے حکمِ سابق کو منسوخ کر کے زنا کو ایک قانونی  جرم قابلِ دست اندازیِ سرکار(Cognizable Offence ) قرار دے دیا۔
(۶) اس آیت میں زنا کی جو سا مقرر کی گئی ہے وہ دراصل”محض زنا“ کی سزا ہے، زنا بعدِ احصان (یعنی شادی شدہ ہونے کے بعد زنا کے ارتکاب) کی سزا ہے جو اسلامی قانون کی نگاہ میں سخت تر جرم ہے۔ یہ بات خود قرآن ہی کے ایک اشارے سے معلوم ہو  تی ہے کہ وہ یہاں اُس زنا کی سزا بیان کر رہا ہے  جس کے فریقین غیر شادی شدہ ہوں۔ سورۂ نساء میں پہلے ارشاد ہوا کہ:
وَالّٰتِیْ یَاتِیْنَ الْفَاحِشَۃَ مِنْ نِّسَآ ئِکُمْ ۔۔۔۔۔۔ اَوْ یَجْعَلَ اللہُ لَھُنَّ سَبِیْلًا o (آیت ۱۵)
تمہاری عورتوں میں سے جو بدکاری کی مرتکب ہوں ان پر اپنے میں سے چار آدمیوں کی گواہی لو، اور اگر وہ گواہی دے دیں تو ان کو گھر وں میں بند رکھو یہاں تک کہ انہیں موت آجائے یا اللہ ان کے لیے کوئی راستہ نکال دے۔

اس کے بعد تھوڑی دور آگے چل کر پھر فرمایا:
وَمَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ مِنْکُمْ طَوْلًا اَنْ یَّنْکِحَ الْمُحْصَنٰتِ الْمُؤْ مِنٰتِ فَمِنْ مَّا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ مِنْ فَتَیٰتِکُمُ الْمُؤْ مِنٰتِ ۔۔۔۔۔۔ فَاِ ذَآ اُحْصِنَّ فَاِنْ  اَتَیْنَ بِفَا حِشَۃٍ فَعَلَیْھِنَّ نِصْفُ مَا عَلَی الْمُحْصَنٰتِ مِنَ الْعَذَ ابِ (آیت ۲۵)
اور تم میں سے جو لوگ اتنی مقدرت نہ رکھتے ہوں کہ مومنوں میں سے مُحصَنٰت کے ساتھ نکاح کریں تو وہ تمہاری مومن لونڈیوں سے نکاح کر لیں ۔۔۔۔۔۔ پھر اگر وہ (لونڈیاں) مُحْصَنَہ ہو جانے کے بعد کسی بد چلنی کی مرتکب  ہوں تو ان پر اس سزا کی بہ نسبت آدھی سزا ہے جو محصَنٰت کو (ایسے جرم پر ) دی جائے۔
ان میں سے پہلی آیت میں توقع دلائی گئی ہے کہ زانیہ عورتیں جن کو سردست قید کر نے کا حکم دیا جا رہا ہے ، اُن کے لیے اللہ تعالیٰ بعد میں کوئی سبیل پیدا کرے گا۔ اس سے  معلوم ہوا کہ سورۂ نور کا یہ دوسرا حکم وہی چیز ہے جس کا وعدہ سورۂ نساء کی مذکورۂ بالا آیت میں کیا گیا تھا۔ دوسری آیت میں شادی شدہ لونڈی کے ارتکابِ زنا کی سزا بیان کی گئی ہے ۔ یہاں ایک ہی آیت اور ایک ہی سلسلہ ٔ بیان میں دو جگہ محصَنات کا لفظ استعمال ہوا ہے اور لا محالہ یہ مانن پڑے گا کہ دونوں جگہ اس کے ایک ہی معنی ہیں۔۔ اب آغاز کے فقرے کو دیکھیے تو وہاں کہا جا رہا ہے کہ  جو لوگ”محصَنات سے نکاح کرنے کی مقدرت نہ رکھتے ہوں“۔ ظاہر ہے کہ اس سے مراد شادی شدہ عورت نہیں ہو سکتی بلکہ ایک آزاد خاندان کی بن بیاہی عورت ہی ہو سکتی ہے۔ اس کے بعد اختتام کے فقرے میں فرمایا جاتا ہے کہ لونڈی منکوحہ ہونے کے بعد اگر زنا کرے تو اس کو اُس سزا سے آدھی سزا دی جائے جو محصَنات کو اس جرم پر ملنی چاہیے۔ سیاق و عبارت  صاف بتاتا ہے کہ اس فقرے میں بھی محصنات کے معنی وہی ہیں جو پہلے فقرے میں تھے، یعنی شادی شدہ عورت نہیں بلکہ آزاد خاندان کی حفاظت میں رہنے والی بن بیاہی عورت۔ اس طرح سورۂ نساء کی یہ دونوں آیتیں مل کر اس امر کی طرف اشارہ کردیتی ہیں کہ سورۂ نور کا یہ حکم ،جس کا وہاں وعدہ کیا گیا تھا، غیر شادی شدہ لوگوں کے ارتکابِ زنا کی سزا بیان کرتا ہے (مزید توضیح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اوّل، النساء، حاشیہ ۴۶)۔
(۷) یہ امر کہ زنا بعدِ احصان کی سزا کیا ہے ، قرآن مجید نہیں بتاتا بلکہ اس کا علم ہمیں حدیث سے حاصل ہوتا ہے ۔ بکثرت معتبر روایات سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف قولًا اس کی سزا رجم (سنگساری) بیان فرمائی ہے ، بلکہ عملًا آپ نے متعدد مقدمات میں یہی سزا نافذ بھی کی ہے ۔ پھر آپ کے بعد چاروں خلفائے راشدین نے اپنے اپنے دَور میں یہی سزا نافذ کی اور اسی کے قانونی سزا ہونے کا بار بار اعلان کیا۔ صحابۂ کرام اور تابعین میں یہ مسئلہ بالکل متفق علیہ تھا۔ کسی ایک شخص کا بھی کوئی قول ایسا موجود نہیں ہے جس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکے کہ قرنِ اوّل میں کسی کو اس کے ایک ثابت شدہ حکم شرعی ہونے میں کوئی شک تھا۔ ان  کے بعد تما م زمانوں اور ملکوں کے فقہائے اسلام اس بات پر متفق رہے ہیں کہ یہ ایک سنتِ ثابتہ ہے ، کیونکہ اس کی صحت کے اتنے متواتر اور قوی ثبوت موجود ہیں جن کے ہوتے کوئی صاحب ِ علم اس سے انکار نہیں کر سکتا ۔ امت کی پوری تاریخ میں بجز خوارج اور بعض معتزلہ کے کسی نے بھی اس سے انکار نہیں کیا ہے، اور ان کے انکار کی بنیاد بھی یہ نہیں تھی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم  سے اس حکم کے ثبوت میں وہ کسی کمزوری کی نشان دہی کر سکے ہوں ، بلکہ وہ اسے ”قرآن کے خلاف“ قرار دیتے تھے۔ حالانکہ یہ ان کے اپنے فہم قرآن کا قصور تھا۔ وہ کہتے تھے کہ قرآن  الزّانی والزّانیۃ  کے مطلق الفاظ استعمال کر کے اس کی سزا سو کوڑے بیان کرتا ہے ، لہٰذا قرآن کی رو سے ہر قسم کے زانی اور زانیہ کی سزا یہی ہے اور اس سے زانی مُحْصِن کو الگ کر کے اس کی کوئی اور سزا  تجویز کرنا قانونِ خداوند کی خلاف ورزی ہے ۔ مگر انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ قرآن کے الفاظ جو قانونی وزن رکھتے ہیں وہی  قانونی وزن  ان کی اُس تشریح کا بھی ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہو، بشرطیکہ وہ آپ ؐ سے ثابت ہو۔  قرآن نے ایسے ہی مطلق الفاظ میں السّارق والسّارقۃ   کا حکم بھی قطع ید بیان کیا ہے۔ اس حکم کو اگر ان تشریحات سے  مقید نہ کیا جائے جو نبی صلی  اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں تو اس کے الفاظ کی عمومیت کا تقاضا یہ ہے کہ آپ ایک  سوئی یا ایک بیر کی چوری پر بھی آدمی کو سارق قرار دیں اور پھر پکڑ کر اس کا ہاتھ شانے کے پاس سے کاٹ دیں۔ دوسری طرف لاکھوں روپے کی چوری  والا  بھی  اگر گرفتار ہو تے ہی کہہ دے کہ میں انے اپنے نفس کی اصلاح کر لی  ہے اور اب میں چوری  سے توبہ کرتا ہوں تو آپ کو اسے چھوڑ دینا چاہیے کیونکہ قرآن کہتا ہے   فَمَنْ تَابَ مِنْم بَعْدِ ظُلْمِہٖ وَاَصْلَحَ فَاِنَّ اللہَ یَتُوْبُ عَلَیْہِ (المائدہ ۔ آیت ۳۹)۔اسی طرح قرآن  صرف رضاعی ماں اور رضاعی بہن  کی حرمت بیان کرتا ہے،  رضاعی بیٹی کی حرمت اس استدلال کی رو سے قرآن کےخلا ف ہونی چاہیے ۔ قرآن صرف دو بہنوں کے جمع کرنے سے منع کرتا ہے۔ خالہ اور بھانجی ، اور پھوپھی اور بھتیجی  کے جمع کرنے کو جو شخص حرام کہے اس پر قرآن کے خلاف حکم لگانے کا الزام عائد ہونا چاہیے۔ قرآن صرف اُ س حالت میں سوتیلی بیٹی کو حرام کرتا ہے جبکہ اُ س نے سوتیلے باپ کے گھر میں پرورش پائی ہو۔ مطلقًا اس کی حرمت خلاف قرآن قرار پانی چاہیے۔ قرآن صرف اُس وقت رہن کی اجازت دیتا ہے جب کہ آدمی سفر میں ہو اور قرض کی دستاویز لکھنے والا کاتب میسر نہ آئے۔ حضر میں ، اور کاتب کے قابل حصول ہونے کی صورت میں رہن کا جواز قرآن کے خلاف ہو نا چاہیے۔ قرآن عام لفظوں میں حکم دیتا ہے وَاَشْھَدُوْآ اِذَا تَبَا یَعْتُمْ  (گواہ بناؤ جب کہ آپس میں خرید و فروخت کرو)۔ اب وہ تمام خرید وفروخت  ناجائز ہونی چاہیے جو رات دن ہماری دکانوں پر گواہی کے بغیر ہو رہی ہے۔ یہ صرف چند مثالیں ہیں جن پر ایک نگاہ ڈال لینے سے ہی ان لوگوں کے استدلال کی غلطی معلوم ہو جاتی ہے  جو رجم کے حکم کو خلافِ قرآن کہتے ہیں۔ نظامِ شریعت میں نبی کا یہ منصب ناقابلِ انکار ہے  کہ وہ خدا کا حکم پہنچانے کے بعد ہمیں بتائے کہ اس حکم کا منشا کیا ہے، اُس پر عمل کرنے کا طریقہ کیا ہے ، کن معاملات پر اس کا اطلاق ہو گا، اور کن معاملات کے لیے دوسرا حکم ہے۔ اس منصب کا انکار صرف اصولِ دین ہی کے خلاف نہیں ہے بلکہ اس سے اتنی عملی قباحتیں لازم آتی ہیں کہ ان کا شمار نہیں ہو سکتا۔
(۸) زنا کی قانونی تعریف میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے ۔ حنفیہ اس کی تعریف یہ کرتے ہیں کہ ”ایک مرد کا کسی ایسی عورت سے قُبُل میں مباشرت کرنا جو نہ تو اس کےنکاح  یا ملک  یمین میں ہو اور نہ اس امر کے شبہ کی کوئی معقول وجہ ہو کہ اس نے  منکوحہ یہ مملوکہ سمجھتے ہوئے اس سے مباشرت کی ہے“۔ اس تعریف کی رو سے وطی فی الدُبُر، عملِ قومِ لوط، بہائم سے مجامعت وغیرہ، ماہیتِ زنا سے خارج ہو جاتے ہیں اور صرف عورت سے قُبُل میں مباشرت ہی پر اس کا اطلاق ہوتا ہے جب کہ شرعی حق یا اس کے شبہ کے بغیر یہ فعل کیا گیا ہو۔ بخلاف اس کے شافعیہ اس کی تعریف یوں بیان کرتے ہیں ”شرمگاہ کو ایسی شرمگاہ میں داخل کرنا جو شرعًا حرام ہو مگر طبعًا جس کی طرف رغبت کی جا سکتی ہو“۔ اور مالکیہ کے نزدیک اس کی تعریف یہ ہے کہ ”شرعی یا اس کے شبہ کے بغیر قُبُل یا دُبُر میں مرد یا عورت سے وطی کرنا“۔ ان دونوں تعریفوں کی رو سے عمل قوم ِ لوط بھی زنا میں شمار ہو جاتا ہے۔ لیکن صحیح بات یہ ہے کہ  یہ دونوں  تعریفیں لفظ زنا کے معروف معنوں سے ہٹی ہوئی ہیں۔ قرآن مجید  ہمیشہ الفاظ کو اُن کے معروف اور عام فہم معنی میں استعمال کرتتا ہے ، الّا  یہ کہ وہ کسی لفظ کو اپنی اصطلاحِ  خاص بنا رہا ہو، اور اصطلاِ خاص بنانے کی صورت میں وہ خود اپنے مفہوم ِ خاص کو ظاہر کر دیتا ہے ۔ یہاں ایسا کوئی قرینہ نہیں ہے کہ لفظ زنا کو کسی مخصوص معنی میں استعمال کیا گیا ہو، لہٰذا اسے معروف معنی ہی میں لیا جائےگا، اور وہ عورت سے فطری مگر ناجائز تعلق تک ہی محدود ہے، شہوت رانی کی دوسری صورتوں تک وسیع نہیں ہوتا۔ علاوہ بریں یہ بات معلوم ہے کہ عملِ قوم ِ لوط کی سزا کے بارے  میں صحابہ ٔ  کرام  کے درمیان اختلاف ہوا ہے۔ اگر اس فعل کا شمار بھی اسلامی اصطلاح کی رو سے زنا میں ہوتا تو ظاہر ہے کہ اختلافِ رائے کی کوئی وجہ نہ تھی۔
(۹)قانونًا ایک فعلِ زنا کو مستلزمِ سزا قرار دینے کے لیے صرف اِدخالِ حشفہ کافی ہے۔ پوراا دخال یا تکمیلِ فعل  اس کے لیے ضرور ی  نہیں ہے ۔ اس کے برعکس اگر ادخال حشفہ نہ ہوتو محض ایک بستر پر یکجا  پایا جانا، یا ملاعبت کرتے ہوئے دیکھا جانا ، یا برہنہ پایا جانا کسی کو زانی قرار دینے کے لیے کافی نہیں ہے۔ اور اسلامی شریعت اس حد تک بھی نہیں جاتی کہ کوئی جوڑا  ایسی حالت میں پایا جائے تو اس کا ڈاکٹری معائنہ کرا کے زنا  کا ثبوت بہم پہنچایا جائے اور پھر اس پر حدِّ زنا جاری کی جائے۔ جو لوگ اس طرح کی بے حیائی میں مبتلا  پائے جائیں ان پر صرف تعزیر ہے جس کا فیصلہ حالات کے لحاظ سے حاکمِ عدالت خود  کرے گا ، یا جس کے لیے اسلامی حکومت کی مجلس شوریٰ کوئی سزا تجویز کرنے کی مجاز ہو گی۔ یہ تعزیر اگر کوڑوں کی شکل میں ہو تو د س کوڑوں سے زیادہ نہیں لگائے جا سکتے ، کیونکہ حدیث میں تصریح ہے کہ  لا یجلد فوق عشر جلداتٍ اِلَّا فی حدٍّ من حدود اللہ”اللہ کی مقرر کردہ حدود کے سوا کسی اور جرم میں دس کوڑوں سے زیادہ نہ مارے جائیں“(بخاری ، مسلم ، ابو داؤد)۔ اور اگر کوئی شخص پکڑا نہ گیا ہو بلکہ خود نادم ہو کر ایسے کسی قصور کا اعتراف  کرے تو اس کے لیے صرف توبہ کی تلقین کافی  ہے۔ عبد اللہ بن مسعودؓ کی روایت ہے کہ ایک شخص  نے حاضر ہو عرض کیا کہ”شہر کے باہر میں ایک عورت سے سب کچھ کر گزرا بجز جماع کے۔ اب حضور جو چاہیں مجھے سزا دیں“۔ حضرت عمرؓ نے کہا”جب خدا نے پردہ ڈال دیا تھا تو تُو  بھی پردہ پڑا رہنے دیتا“۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے اور وہ شخص چلا گیا۔ پھر آپؐ نے اسے واپس بلایا اور یہ آیت پڑھی   اَقِمِ الصَّلوٰ ۃَ طَرَفَیِ النَّھَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّیْلِ ط اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّاٰتِ ط ”نماز قائم کر دن کے دونوں سروں پر اور کچھ رات گزرنے پر ، نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں“ (ہُود، آیت ۱۱۴)۔ ایک شخص نے پوچھا ”کیا یہ اسی کے لیے خاص ہے “؟ حضورؐ نے فرمایا”نہیں، سب کے لیے ہے۔“(مسلم، ترمذی، ابوداؤد، نسائی)۔ یہی نہیں بلکہ شریعت اس کو بھی جائز نہیں رکھتی کہ کوئی شخص اگر جرم کی تصریح کے بغیر  اپنے مجرم ہونے کا اعتراف کرے تو کھوج لگا کر اس سے پوچھا جائے کہ تُو نے کون سا جرم کیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص نے حاضر ہو کر عرض کیا”یا رسول اللہ میں حد کا مستحق  ہو گیا ہوں ، مجھ پر حد جاری فرمائیے“۔ مگر آپؐ نے اس سے نہیں پوچھا کہ تُو کس حد کا مستحق ہوا ہے۔ پھر نماز سے فارغ ہو کر وہ شخص پھر اُٹھا اور کہنے لگا کہ میں مجرم ہوں مجھے سزا دیجیے۔ آپؐ نے فرمایا”کیا تُو نے ابھی ہمارے ساتھ نماز نہیں پڑھی“؟ اس نے عرض کیا ”جیہاں“۔ فرمایا ”بس تو اللہ نے تیرا قصور معاف کر دیا“۔ (بخاری، مسلم ، احمد)۔
(۱۰) کسی شخص (مرد یا عورت) کو مجرم قرار دینے کے لیے صرف یہ امر کافی نہیں ہے کہ اس سے فعل زنا صادر ہوا ہے ، بلکہ اس کے لیے مجرم میں کچھ شرطیں پائی جانی چاہییں۔ یہ شرطیں زنا ئے محض کے معاملے میں اور ہیں ، اور زنا بعد احصان کے معاملہ میں اَور۔
زنائے محض کے معاملے میں شرط یہ ہے کہ مجرم عاقل وہ بالغ ہو ۔ اگر کسی مجنون یا کسی بچے سے یہ فعل سرزد ہو تو وہ حدِ زنا کا مستحق نہیں ہے۔
اور زنا بعد اِحصان کے لیے عقل اور بلوغ کے علاوہ چند مزید شرطیں بھی ہیں جن کو ہم ذیل میں بیان کرتے ہیں:
پہلی شرط یہ ہے کہ مجرم آزاد ہو۔ اس شرط پر سب کا اتفاق ہے ،کیونکہ قرآن خود اشارہ کرتا ہے کہ غلام کو رجم کی سزا نہیں دی جا ئے گی۔ ابھِ یہ بات گزر چکی ہے کہ لونڈی اگر نکاح کے بعد زنا کی مرتکب ہو تو اسے غیر شادی شدہ آزاد عورت کی بہ نسبت آدھی سزا دینی چاہیے۔ فقہاء نے تسلیم کیا ہے کہ قرآن کا یہی قانون غلام پر بھی نافذ ہو گا۔
دوسری شرط یہ ہے کہ مجرم باقاعدہ شادی شدہ ہو ۔ یہ شرط بھی متفق علیہ ہے، اور اس شرط کی رو سے کوئی ایسا شخص جو ملک یمین کی بنا پر تمتع کر چکا ہو ، یا جس کا نکاح کسی فاسد طریقے سے ہوا ہو، شادی شدہ قرار نہیں دیا جا ئے گا یعنی اُس سے اگر زنا کاصدور ہو تو اس کو رجم کی نہیں بلکہ کوڑوں  کی سزا دی جائے گی۔
تیسری شرط یہ ہے کہ اس کا محض نکاح ہی نہ ہوا ہو بلکہ نکاح کے بعد خلوتِ صحیحہ بھی ہو چکی ہو۔ صرف عقدِ نکاح کسی مرد کو مُحصِن ، یا عورت کو مُحصنَہ نہیں بنا دیتا  کہ زنا کے ارتکاب کی صورت میں اس کو رجم کر دیا جائے۔ اس شرط پر بھی اکثر فقہا متفق ہیں ۔ مگر امام ابو حنیفہ اور امام  محمد  اس میں اتنا اضافہ اور کرتے ہیں کہ ایک مرد یا ایک عورت کو محصن صرف اسی صورت میں قرار دیا جائے گا  جب کہ نکاح اور خلوت صحیحہ کے وقت زوجین آزاد ، بالغ اور عاقل ہوں۔ اس مزید شرط سے جوفرق واقع ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اگر ایک مرد کا نکاح ایسی عورت سے ہُوا ہو جو لونڈی ہو، یا نابالغ ہو، یا مجنون ہو، تو خواہ وہ اس حالت میں اپنی بیوی سے لذت اندوز ہو بھی چکا ہو، پھر بھی وہ مرتکبِ زنا ہونے کی صورت میں رجم کا مستحق نہ ہو گا ۔ یہی معاملہ عورت  کا بھی ہے کہ اگر اس کو اپنے  نابالغ یا مجنون یا غلام شوہر سےلذت اندوز ہونے کا موقع مل چکا ہو، پھر بھی وہ مرتکبِ زنا ہونے کی صورت میں رجم کی مستحق نہ ہوگی۔ غور کیاجائے تو محسوس ہوتا ہے کہ یہ ایک بہت ہی معقول اضافہ ہے جو ان دونوں بالغ النظر  بزرگوں نے کیا ہے۔
چوتھی شرط یہ ہے کہ مجرم مسلمان ہو۔ اس میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ امام شافعی ، امام ابو یوسف اور  اما م احمد اس کو نہیں مانتے ۔ ان کے نزدیک ذِمّی بھی اگر زنا بعد اِحصان کا مرتکب ہو گا تو رجم کیا جا ئے گا۔ لیکن امام ابو حنیفہ اور امام مالک اس امر پر متفق ہیں کہ زنا بعد احصان کی سزا رجم صرف مسلمان کے  لیےہے۔ اس کےدلائل میں سے سب سے زیادہ معقول اور وزنی دلیل یہ ہے کہ ایک آدمی کو سنگسار  جیسی خوفناک سزا دینے کےلیے ضروری ہے کہ وہ مکمل ”احصان“ کی حالت میں ہو اور پھر بھی زنا کے ارتکاب سے باز نہ آئے۔ احصان کا مطلب ہے ”اخلاقی قلعہ بندی“، اور اس کی تکمیل  تین حصاروں سے ہوتی ہے۔ اوّلیں حصار یہ ہے کہ آدمی خدا پر ایمان رکھتا ہو، آخرت کی جواب دہی کا قائل ہو اور شریعت خداوندی کو تسلیم کرتا ہو۔ دوسرا حصار یہ ہے کہ وہ معاشرے کا آزاد فرد ہو ، کسی دوسرے کی غلامی میں نہ ہو جس کی پابندیاں اسے اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے جائز تدابیر اختیار کرنے میں مانع ہوتی ہیں ، اور لاچاری و مجبوری اس سے گناہ کرا سکتی ہے، اور کوئی خاندان اسے اپنے اخلاق اور اپنی عزت کی حفاظت میں مدد دینے والا نہیں ہوتا۔  تیسرا حصار یہ ہے کہ اس کا نکاح ہو چکا ہو اور اسے تسکینِ نفس کا جائز ذریعہ حاصل ہو۔ یہ تینوں حصار جب پائے جاتے ہوں تب  ”قلعہ بندی“ مکمل ہوتی ہے اور تب ہی وہ شخص بڑا حصار، یعنی خدا اور آخرت اور قانونِ خداوندی پر ایمان ہی موجود نہ ہو وہاں یقینًا قلعہ بندی مکمل نہیں ہے اور اس بنا پر فجور کا جرم بھی اُس شدت کو پہنچا ہوا نہیں ہے جو اسے انتہائی سزا کا مستحق بنا دے۔ اسی دلیل کی تائید ابن عمر کی وہ روایت کرتی ہے جسے اسحاق بن راہَوَیہ نے اپنی مُسنَد میں اور دار قُطنی نے اپنی سُنَن میں نقل کیا ہے کہ  من اشرک باللہ فلیس بمحصن  ” جس نے خدا کے ساتھ شرک کیا وہ محصن نہیں ہے“۔ اگر چہ اس امر میں اختلاف ہے کہ آیا ابن عمر نے اس روایت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قول نقل کیا ہے یا یہ ان کا اپنا فتویٰ ہے ۔ لیکن اس کمزوری کے باوجود اس کا مضمون اپنے معنی کے لحاظ سے نہایت قوی ہے ۔ اس کے جواب میں اگر یہودیوں کے اُس مقدمے سے استدلال کیا جائے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کا حکم نافذ فرمایا تھا، تو ہم کہیں گے کہ یہ استدلال صحیح نہیں ہے۔ اس لیے کہ اُس مقدمے کے متعلق تمام معتبر روایات کو جمع کرنے سے صافف معلوم ہوتا ہے کہ اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے اُن پر اسلام کا ملکی قانون(Law of the Land ) نہیں بلکہ ان کا اپنا مذہبی قانون (Personal Law ) نافذ فرمایا تھا۔ بخاری و مسلم کی متفقہ روایت ہے کہ جب یہ مقدمہ آپ کے پاس لایا گیا   تو آپ نے یہودیوں سے پوچھا کہ   ما تجدون فی التوراۃ فی شان الرجم یا ما تجدون فی کتابکم،  یعنی” تمہاری کتاب توراۃ میں اس کا کیا حکم ہے“؟ پھر جب یہ بات ثابت ہو گئی کہ ان کے ہاں رجم کا حکم ہے تو حضور ؐ نے فرمایا   فانی احکم بما فی التوراۃ  ”میں وہی فیصٖہ کرتا ہوں جو توراۃ میں ہے“۔ اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپؐ نے اس مقدمے کا فیصلہ کرتے ہوئے فرمایا   اللھم انی اول من احیا امرک اذا ما توہ، ”خدا وندا، میں پہلا شخص ہوں جس نے تیرے حکم کو زندہ کیا جب کہ انہوں نے  اسے مردہ کر دیا تھا“۔(مسلم، ابوداؤد، احمد)
(۱۱) فعلِ زنا  کے مرتکب کو مجرم قرار دینے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اس نے اپنی آزاد مرضی سے یہ فعل کیا ہو۔ جبر و اکراہ سے اگر کسی شخص کو  اس فعل کے ارتکاب پر مجبور کیا گیا ہو تو وہ نہ مجرم ہے نہ سزا کا مستحق۔ اس معاملے پر شریعت کا صرف یہ عام قاعدہ ہی منطبق نہیں ہوتا کہ ”آدمی جبرًا  کرائے ہوئے کاموں کی ذمہ داری سے بری ہے“، بلکہ آگے چل کر اِسی سُورے میں خود قرآن اُن عورتوں کی معافی کا اعلان کرتا ہے جن کو زنا پر مجبور کیا گیا ہو۔ نیز متعدد احادیث میں تصریح ہے کہ زنا بالجبر کی صورت میں صرف زانی ٔ جابر کو سزا دی گئی اور جس پر جبر کیا گیا تھا اسے چھوڑ دیا گیا۔ ترمذی  و ابو داؤد کی روایت ہے کہ ایک عورتت اندھیرے میں نماز کے لیے نکلی۔ راستے میں ایک شخص نے اس کو گرا لیا اور زبردستی اس کی عصمت دری کر دی۔ اس کے شور مچانے پر لوگ آگئے اور زانی پکڑا گیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو رجم کر ا دیا اور عورت کو چھوڑ دیا۔ بخاری کی روایت ہے کہ حضرت عمر ؓ کے زمانۂ خلافت میں ایک شخص نے ایک لڑکی سے زنا بالجبر کا ارتکاب کیا۔ آپ نے اسے کوڑ ے لگوائے اور لڑکی کو چھوڑ دیا۔ ان دلائل کی بنا پر عورت کے معاملہ میں تو قانون متفق علیہ ہے۔ لیکن اختلاف اس امر میں ہوا ہے کہ آیا مرد کے معاملے میں بھی جبر و اکراہ معتبر ہے یا نہیں۔ امام ابو یوسف ؒ، امام محمدؒ، امام شافعیؒ اور امام حسنؒ بن صالح کہتے ہیں کہ مرد بھی اگر زنا کرنے پر مجبور کیا گیا ہوتو معاف کیا جائے گا۔ امام زُفَر ؒ کہتے ہیں کہ اسے معاف نہیں کیا جائے گا، کیونکہ وہ انتشارِ عضور کے بغیر  اس فعل کا ارتکاب نہیں کر سکتا، اور انتشارِ عضو اس امر کی دلیل ہے کہ اس کی  اپنی شہوت اس کی محرک ہوئِ تھی۔ امام ابو حنیفہؒ کہتے ہیں کہ اگر حکومت یا اس کے کسی حاکم نے آدمی کو زنا  پر مجبور کیا ہو تو سزا نہیں دی جائے گی ، کیونکہ جب خود حکومت ہی جرم پر مجبور کرنے والی ہو تواُسے سزا دینے کا حق نہیں رہتا۔ لیکن اگر حکومت کے سوا کسی اور نے مجبُور کیا ہو تو زانی کو سزا دی جائے گی، کیونکہ ارتکابِ زنا بہر حال وہ اپنی شہوت کے بغیر نہ کر سکتا تھا اور شہوت جبراً پیدا نہیں  کی جا سکتی۔ ان تینوں اقوال  میں سے پہلا قول ہی زیادہ صحیح ہے، اور اس کی دلیل یہ ہے کہ انتشارِ عضو چاہے شہوت کی دلیل ہو مگر رضا ؤ رغبت  کی لازمی دلیل نہیں ہے۔ فرض کیجیے کہ ایک ظالم کسی شریف آدمی کو زبر دستی پکڑ کر قید کر دیتا ہے اور اس کے ساتھ ایک جوان ، خوبصورت عورت کو بھی برہنہ کر کے ایک کمرے میں بند رکھتا ہے اور اسے اس وقت تک رہا نہیں کرتا جبتک کہ وہ زنا کا مرتکب نہ ہو جائے۔ اس حالت میں اگر یہ دونوں زنا کے مرتکب ہو جائیں اور وہ ظالم اس کے چار گواہ بنا کر انہیں عدالت میں پیش کر دے تو کیا یہ انصاف ہو گا کہ ان کے حالات کو نظر انداز کر کے انہیں سنگسار کر دیا جائے یا ان پر کوڑے برسائے جائیں؟ اس طرح کے حالات عقلاً یا عادتاً ممکن ہیں جن میں شہوت لاحق ہو سکتی ہے، بغیر اس کے کہ اس میں آدمی کی رضا و رغبت کا دخل ہو۔ اگر کسی شخص کو قید کرکے شراب کے سوا پینے کو کچھ نہ دیا جائے ، اور اس حالت   میں وہ شراب پی لے تو کیا محض اس دلیل سے اس کو سزا دی جا سکتی ہے کہ حالات تو واقعی اُس کے لیے مجبوری کے تھے مگر حلق سے شراب کا گھونٹ وہ اپنے ارادے کے بغیر نہ اتار سکتا تھا؟ جرم کے متحقق ہونے کے لیے محض ارادے کا پایا جانا کافی نہیں ہے بلکہ اس کے لیے آزاد ارادہ ضروری ہے۔ جو شخص زبر دستی ایسے حالات میں مبتلا  کیا گیا ہو کہ وہ جرم کا ارادہ کرنے پر مجبور ہو جائے وہ بعض صورتوں میں تو قطعی مجرم نہیں ہو تا، اور بعض صورتوں میں اس کا جرم بہت ہلکا ہو جاتا ہے۔
(۱۲) اسلامی قانون حکومت کے سوا کسی کو یہ اختیار نہیں دیتا  کہ وہ زانی اور زانیہ کے خلاف کارروائی کرے اور عدالت کے سوا کسی کو یہ حق نہیں دیتا کہ وہ اس پر سزا دے۔ اس امر پر تمام امت  کے فقہاء کا اتفاق ہے کہ آیت ِ زیر بحث میں حکم  فاجلدوا (ان کو کوڑے مارو) کے مخاطب عوام نہیں ہیں  بلکہ اسلامی حکومت کے حکام اور قاضی ہیں۔ البتہ غلام کے معاملے میں اختلاف ہے کہ اس پر اس کا آقا حد جاری کرنے کا مجاز ہے یا نہیں ۔ مذہب حنفی کے تمام ائمہ اس پر متفق ہیں کہ وہ اس کا مجاز نہیں ہے۔ شافعیہ کہتے ہیں کہ مجاز ہے۔ اورمالکیہ کہتے ہیں کہ آقا کو سرقہ میں ہاتھ کاٹنے کا تو حق نہیں  ہے مگر زنا ، قذف اور شراب نوشی پر وہ حد  جاری کر سکتا ہے ۔
(۱۳) اسلامی قانون زنا کی سزا کو قانونِ مملکت کا ایک حصہ قرار دیتاہے اس لیے مملکت کی تمام رعایا پر یہ حکم جاری ہو گا خواہ وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم۔ اس سے امام مالک کے سوا غالبًا ائمہ میں سے کسی نے اختلاف نہیں کیا ہے۔ رجم کی سزا غیر مسلموں پر جاری کرنے میں امام ابوحنیفہ  کا اختلاف اس بنیاد پر نہیں ہے کہ یہ قانونِ مملکت نہیں ہے ، بلکہ اس بنیاد پر ہے کہ ان کے نزدیک رجم کو شرائط میں سے ایک شرط زانی کا پورا محصِن ہونا ہے اور احصان کی تکمیل اسلام کے بغیر نہیں ہوتی ، اس وجہ سے وہ غیر مسلم زانی کو رجم کی سزا سے مستثنیٰ قرار دیتے ہیں۔ بخلاف اس کے امام مالک کے نزدیک اس حکم کے  مخاطب مسلمان ہیں نہ کے کافر، اس لیے وہ حدِّ زنا کو مسلمانوں کے شخصی قانون (پرسنل لا) کا ایک جز قرار دیتے ہیں۔ رہا مستامن (جو کسی دوسرے ملک سے دارالاسلام میں اجازت لے کر آیا ہو)  تو امام شافعیؒ اور امام ابو یوسفؒ کے نزدیک وہ بھی اگر دارالاسلام میں زنا کرے تو اس پر حد جاری کی جائے گی۔ لیکن امام ابو حنیفہ  اور امام محمد کہتے ہیں کہ ہم اُس پر حد جاری نہیں کر سکتے۔
(۱۴) اسلامی قانون یہ لازم نہیں کرتا کہ کوئی شخص اپنے جرم کا خود اقرار کرے، یا جو لوگ کسی شخص کے جرم زنا پر مطلع ہوں وہ ضرور ہی اس کی خبر حکام تک پہنچائیں۔ البتہ جب حکام اس پر مطلع ہو جائیں تو پھر اس جرم کے لیے معافی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی  اللہ علیہ وسلم نے فرمایا   من اتی شیئا من ھٰذہ القاذو رات فلیستتربستر اللہ فان بدیٰ لنا صفحتہ اقمنا علیہ کتاب اللہ (احکام القرآن ، للجصاص)۔” تم میں سے جو شخص اِن گندے کاموں میں سے کسی کر مرتکب ہو جائے تو اللہ کے ڈالے ہوئے پردے میں چھُپا رہے۔ لیکن اگر وہ  ہمارے سامنے اپنا پردہ کھولے گا  تو ہم اس پر کتاب اللہ کا قانون نافذ کر کے چھوڑیں گے“۔ ابوداؤد میں ہے کہ ماعزِبن مالک اسلمی سے جب زنا کا جرم سرزد ہو گیا تو ہزّال بن نُعَیم نے ان سے کہا کہ جا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنے اس جرم کا اقرار کرو۔ چنانچہ انہوں نے  جا کر حضورؐ سے اپنا جرم بیان کر دیا۔ اس پر  حضورؐ نے ایک طرف تو انہیں رجم کی سزا دی اور دوسری طرف ہزّال سے فرمایا    لو ستر تہ بثوبک کان خیرًا لک”کاش تم اس کا پردہ ڈھانک دیتے تو تمہارے لیے زیادہ اچھا تھا“۔ ابوداؤد اور نَسائی میں ایک اور حدیث ہے کہ آپ نے فرمایا     تعافو االحدود فی مابینکم فما بلغنی من حد فقد وجب ”حدود کو آپس ہی میں معاف کر دیا کرو۔ مگر جس حد (یعنی جرم مستلزمِ حد) کا معاملہ مجھ تک پہنچ جائے گا پھر وہ واجب  ہو جائَ گی“۔
(۱۵) اسلامی قانون میں یہ جرم قابلِ راضی نامہ نہیں ہے ۔ قریب قریب تمام کتبِ حدیث میں یہ واقعہ موجود ہے کہ ایک لڑکا ایک شخص کے ہاں اُجرت پر کام کرتا تھا اور وہ اس کی بیوی سے زناکا مرتکب ہو گیا۔ لڑکے کے باپ نے سو بکریاں اور ایک لونڈی دے کر اس شخص کو راضی کیا۔ مگر جب یہ مقدمہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپؐ نے فرمایا اما غنمک و جاریتک فردٌّ علیک”تیری بکریاں اور تیری لونڈی تجھی کو واپس“، اور پھر آپؐ نے زانی اور زانیہ  دونوں پر حد جاری فرما دی۔ اس سے صرف یہی نہیں معلوم ہوتا کہ اس جرم میں راضی نامہ کی کوئی گنجائش نہیں، بلکہ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی قانون میں عصمتوں کا معاوضہ مالی تاوانوں کی شکل میں نہیں دلوایا جا سکتا۔ آبرو کی قیمت کا یہ دیّوثانہ تصوّر مغربی قوانین ہی کو مبارک رہے۔
(۱۶) اسلامی حکومت کسی شخص کے خلاف زنا کے جرم میں کوئی کارروائی نہ کرے گی جب تک کہ اس کے جرم کا ثبوت نہ مل جائے۔ ثبوت جرم کے بغیر کسی کی بدکاری خواہ کتنے ہی ذرائع سے حکام کے علم میں ہو، وہ بہر حال اس پر حد جاری نہیں کر سکتے۔ مدینے میں ایک عورت تھی جس کے متعلق روایات ہیں کہ  وہ کھلی کھلی فاحشہ تھی۔ بخاری کی ایک روایت میں ہے   کانت تظھر فی الاسلام السوء۔ دوسری روایت میں ہے  کانت قد اعلنت فی الاسلام۔ ابن ماجہ  کی روایت  ہے   فقد ظھر منھا الرّبیۃ فیْ منطقہا و ھیئتھا و من یدخل علیھا ۔ لیکن چونکہ اس کے خلاف بدکاری کا ثبوت نہ تھا اس لیے اسے کوئی سزا نہ دی گئی ، حالانکہ اس کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے یہ الفاظ تک نکل گئے تھے کہ  لو کنت راجمًا احدًا بغیر بینۃ لرجمتھا،” اگر میں ثبوت کے بغیر رجم کرنے والا ہوتا تو اس عورت کو ضرور رجم کرادیتا“۔
(۱۷) جرمِ زنا کا پہلا ممکن ثبوت یہ ہےکہ شہادتت اس پر قائم ہو۔ اس کے متعلق قانون کے اہم اجزاء یہ ہیں:
الف۔قرآن تصریح کرتا ہے کہ زنا کے لیے کم سے کم  چار عینی شاہد ہونے چاہییں۔ اس کی صراحت سورۂ نساء آیت ۱۵ میں بھی گزر چکی ہے  اور آگے اسی سورۂ نور میں بھی دو جگہ آرہی ہے۔ شہادت کے بغیر قاضی محض اپنے علم کی بنا پر فیصلہ نہیں کر سکتا خواہ وہ اپنی آنکھوں سے ارتکاب جرم ہوتے دیکھ چکا ہو۔
ب۔گواہ ایسے لوگ ہونے چاہییں جو اسلامی قانون شہادت کی رو سے قابل اعتماد ہوں۔ مثلاً یہ کہ وہ پہلے کسی مقدمے میں جھوٹے گواہ ثابت نہ ہو چکے ہوں، خائن نہ ہوں،  پہلے کے سزا یافتہ نہ ہوں، ملزم سے ان کی دشمنی ثابت نہ ہو ، وغیرہ۔ بہر حال ناقابلِ اعتماد شہادت کی بنا پر نہ تو کسی کو رجم کیا جا سکتا ہے اور نہ کسی کی پیٹھ پر کوڑے برسائے جا سکتے ہیں۔
ج۔گواہوں کو اس بات کی شہادت دینی چاہیے کہ انہوں نے ملزم اور ملزمہ کو عین حالتِ مباشرت میں دیکھا ہے،  یعنی   کالمیل فی المکحلۃ والرشاء فی البئر (اس طرح جیسے سرمہ دانی  میں سلائی اور کنوئیں میں رسّی)۔
د۔ گواہوں کو اس امر میں متفق ہونا چاہیے کہ انہوں نے کب، کہاں، کس کو ، کس سے زنا کرتے  دیکھا ہے۔ ان بنیادی امور میں اختلاف ان کی شہادت کو ساقط کر دیتا ہے۔
شہادت کی یہ شرائط خود ظاہر کر رہی ہیں کہ اسلامی قانون کا منشا یہ نہیں ہے کہ ٹکٹکیاں لگی ہوں اور روز لوگوں کی پیٹھوں پر کوڑے برستے رہیں۔ بلکہ وہ ایسی حالت ہی میں یہ سخت سزا دیتا ہے کہ جبکہ تمام اصلاحی اور انسدادی تدابیر کے باوجود اسلامی معاشرے میں کوئی جوڑا ایسا  بے حیا ہو کہ چار چار آدمی اس کو جرم کرتے دیکھ لیں۔
(۱۸) اس امر میں اختلاف ہے کہ آیا محض حمل کا پایا جانا ، جبکہ عورت کو کوئی شوہر ، یا لونڈی کا کوئی آقا معلوم و معروف نہ ہو، ثابت زنا کے لیے کافی  شہادت بالقرینہ ہے یا نہیں ۔حضرت عمرؓ کی رائے یہ ہے کہ یہ کافی شہادت ہے اور اسی کو مالکیہ نے اختیار کیا ہے۔ مگر جمہور فقہاء کا مسلک یہ ہے کہ محض حمل اتنا مضبوط قرینہ نہیں ہے کہ اس کی بنیاد پر کسی کو رجم کر دیا جائے یا کسی کی پیٹھ پر سو کوڑے برسا دیے جائیں۔ اتنی بڑی سزا کے لیے ناگزیر ہے کہ یا تو شہادت موجود ہو، یا پھر اقرار۔ اسلامی قانون کے بنیادی اصولوں میں سے ایک یہ ہے کہ شبہ سزا دینے کےلیے نہیں بلکہ معاف کرنے کے لیے محرک ہونا چاہیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ  ادفعوا الحدود ما وجدتم  لھا مدفعا، ”سزاؤں کو دفع کرو جہاں تک بھی ان کو دفع کرنے کی گنجائش پاؤ“(ابن ماجہ)۔ ایک دوسری حدیث میں ہے ادرؤ ا الحدود عن المسلمین ما استطعتم فان کان لہٗ مخرجٌ اسبیلہ، فان الامام ان یخطیٔ فی العفو  خیر من ان یخطیٔ فی العقوبۃ، ”مسلمانوں سے سزاؤں کو دور رکھو جہاں تک بھی ممکن ہو۔ اگر کسی ملزم کے لیے سزا سے بچنے کا کوئی راستہ  نکلتا ہے تو اسے چھوڑ دو۔ کیونکہ حاکم کا معاف کر دینے میں غلطی کر جانا اس سے بہتر ہے کہ وہ سزا دینے میں غلطی کر جائے“(ترمذی)۔ اس قاعدے کے لحاظ سے حمل کی موجودگی ، چاہے شبہ کے لیے کتنی ہی قوی بنیاد ہو، زنا کا یقینی ثبوت بہر حال نہیں ہے، اس لیے کہ لاکھ میں ایک درجے کی حد تک اس خفیف شبہ کا امکان بھی اس کے لیے کافی ہونا چاہیے کہ ملزمہ کو زنا کی ہولناک سزا سے معاف رکھا جائے۔
(۱۹) اس امر میں بھی اختلاف ہے کہ اگر زنا کے گواہوں میں اختلاف ہو جائے، یا اور کسی وجہ سے ان کی شہادتوں سے جرم ثابت نہ ہو تو کیا اُلٹے گواہ جھوٹے الزام کی سزا پائیں گے؟ فقہاء کا ایک گروہ کہتا ہے کہ اس صورت میں وہ قاذف قرار پائیں گے اور انہیں ۸۰ کوڑوں کی سزا دی جائے گی۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ ان کو سزا نہیں دی جائے گی کیونکہ وہ گواہ کی حیثیت  سے آئے ہیں نہ کہ مدّعی کی حیثیت سے ۔ اور اگر اس طرح گواہوں کو سزا دی جائے تو پھر زنا کی شہادت بہم پہنچانے کا دروازہ ہی بند ہو جائے گا۔ آخر کس ی شامت نے دھکا دیا ہے کہ سزا کا خطرہ مول لے کر شہادت دینے آئے جبکہ اس  امر کا یقین کسی کو بھی نہیں ہو سکتا کہ  چاروں گواہوں میں سے کوئی ٹُوٹ نہ جائے گا۔ ہمارے نزدیک یہی دُوسری رائے معقول ہے ، کیونکہ شبہ کا فائدہ جس طرح ملزم کو ملنا چاہیے، اسی طرح گواہوں کو بھی ملنا چاہیے۔ اگر ان کی شہادت کی کمزوری اس بات کے لیے کافی نہیں ہے کہ ملزم کو زنا کی خوفناک سزا دے ڈالی جائے، تو اسے اس بات کے لیے بھی کافی نہ ہونا چاہیے کہ گواہوں پر قذف کی خوفناک سزا بر سا دی جائے، اِلّا یہ کہ ان کا صریح جھوٹا ہونا ثابت ہو جائے ۔ پہلے قول کی تائید میں دو بڑی دلیلیں دی جاتی ہیں۔ اوّل یہ کہ قرآن زنا کی جھوٹی تہمت کو مستوجبِ سزا قرار دیتا ہے ۔ لیکن یہ دلیل اس لیے غلط ہے کہ قرآن خود قاذف (تہمت لگانے والے) اور شاہد کے درمیان فرق کر رہا ہے ، اور شاہد محض اس پنا پر قاذف قرار نہیں پا سکتا کہ عدالت نے اس کی شہادت کو ثبوتِ جرم کے لیے کافی نہیں پایا۔  دوسری دلیل یہ دی جاتی ہے کہ مُغِیرَہ بن شُعبَہ کے مقدمے میں حضرت عمرؓ نے ابوبَکرَہ اور ان کے دو ساتھی شاہدوں کو قذف کی سزا دی تھی۔ لیکن اس مقدمے کی پوری تفصیلات دیکھنے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ نظیر ہر اُس مقدمے پر چسپاں نہیں ہوتی جس میں ثبوت جرم کے لیے شہادتیں ناکافی پائی جائیں ۔ مقدمے کے واقعات یہ ہیں کہ بصرے کے گورنر مُغیرَہ بن شُعبہ سے ابوبکرہ کے تعلقات پہلے  سے خراب تھے۔ دونوں کے مکان ایک ہی سڑک پر آمنے سامنے واقع تھے۔ ایک روز یکایک ہوا کے زور سے دونوں کے کمروں کی کھڑکیاں کھل گئیں۔ ابوبکرہ اپنی کھڑکی بند کر نے کے لیے اُٹھے تو ان کی نگاہ سامنے کے کمرے پر پڑی اور انہوں نے حضرت مغیرہ کو مباشرت میں مشغول دیکھا۔ ابوبکرہ  کے پاس ان کے تین دوست (نافع بن کَلَدَہ ، زیاد، اور شِبل بن مَعبَد  ) بیٹھے تھے۔ انہوں نے کہا کہ آؤ، دیکھو اور گواہ رہو کہ مغیرہ کیا کر رہے ہیں۔ دوستوں نے پوچھا یہ عورت کون ہے۔ ابوبکرہ نے کہا اُمِّ جمیل۔ دوسرے روز اس کی شکایت حضرت عمرؓ کی پاس بھیجی گئی۔ انہوں نے فورًا حضرت مغیرہ کو معطّل کر کے حضرت ابوموسیٰ اَشعَری کو بصرے کا گورنر مقرر کیا اور ملزم کو گواہوں سمیت مدینے طلب کر لیا۔ پیشی پر ابوبکرہ اور دو گواہوں نے کہا کہ ہم نے مغیرہ کو اُمِّ جمیل کے ساتھ بالفعل مباشرت کرتے دیکھا۔ مگر زیاد نے کہا کہ عورت صاف نظر نہیں آتی تھی اور میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ وہ امِّ جمیل تھی۔ مغیر ہ بن شعبہ نے جرح میں یہ ثابت کر دیا کہ جس رُخ سے یہ لوگ اُنہیں دیکھ رہے تھے اس سے دیکھنے والا عورت کو اچھی طرح نہیں دیکھ سکتا تھا۔ انہوں نے یہ بھی ثابت کیا کہ ان کی بیوی اور اُمِّ جمیل باہم بہت مشابہ ہیں۔ قرائن  خود بتا رہے  تھے کہ حضرت عمرؓ کی حکومت میں  ایک صوبے کا گورنر ، خود اپنے سرکاری مکان میں، جہاں اس کی بیوی  اس کے ساتھ رہتی تھی ، ایک غیر عورت کو بُلا کر زنا نہیں کر سکتا تھا۔ اس لیے ابوبکرہ اور ان کے ساتھیوں کا یہ سمجھنا کہ مغیرہ اپنے گھر میں اپنی بیوی  کے بجائے امِ جمیل سے مباشرت کر رہے ہیں، ایک نہایت بے جا بد گمانی کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عمرؓ نے صرف ملزم کو بری کرنے ہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ابوبکرہ ، نافع اور شِبل پر حدِّ قذف بھی جاری فرمائی۔ یہ فیصلہ اس مقدمے کے مخصوص حالات کی بنا پر تھا  نہ کہ اس قاعدہ کلیہ کی بنا پر کہ جب کبھی شہادتوں سے جرمِ زنا ثابت  نہ ہوتو  گواہ ضرور پیٹ ڈالے جائِں۔ (مقدمے کی تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو احکام القرآن ابن العربی ، جلد ۲، صفحہ ۸۸ – ۸۹)۔
(۲۰) شہادت کےسوا  دوسری چیز جس سےجرمِ زنا ثابت ہو سکتا ہے وہ مجرم کا اپنا اقرار ہے۔ یہ اقرار صاف اور صریح الفاظ میں فعلِ زنا کے ارتکاب کا ہونا چاہیے، یعنی اسے یہ اعتراف کرنا چاہیے کہ اس نے ایک ایسی عورت سے جو اس کے لیے حرام تھی  کالمیل فی المکحلۃ  یہ فعل کیا ہے۔ اور عدالت  کو پوری طرح یہ اطمینان کر لینا چاہیے کہ مجرم کسی خارجی دباؤ کے بغیر بطورِ خود بحالتِ ہوش و حواس یہ اقرار کر رہا ہے۔ بعض فقہاء کہتے ہیں کہ ایک اقرار کافی نہیں ہے بلکہ مجرم کو چار مرتبہ الگ الگ اقرار کرنا چاہیے(یہ امام ابو حنیفہ، امام احمد، ابن ابی لیلیٰ، اسحاق بن راہَوَیہ اور حسن بن صالح کا مسلک ہے)۔ اور بعض کہتے ہیں کہ ایک ہی اقرار کافی ہے( امام مالک، امام شافعی، عثمان البتّی اور حسن بصری وغیرہ  اس کے قائل ہیں)۔ پھر ایسی صورت میں جب کہ کسی دوسرے تائید ی ثبوت کے بغیر صرف مجرم کے اپنے ہی اقرار پر فیصلہ کیا گیا ہو اگر عین سزا کے دَوران میں بھی مجرم اپنے اقرار سے پھر جائے تو سزا کو روک دینا چاہیے، خوا ہ یہ بات  صریحًا  ہی کیوں نہ ظاہر ہو رہی ہو کہ وہ مار کی تکلیف سے بچنے  کے لیے اقرار سے رجوع کر رہا ہے۔ اِس پورے قانون کا ماخذ وہ نظائر ہیں جو زنا کے مقدمات کے متعلق احادیث میں پائے جاتے ہیں۔ سب سے بڑا مقدمہ عِز بن مالک اسلمی کا ہے جسے متعدّد صحابہ سے بکثرت راویوں نے نقل کیا ہے اور قریب قریب تمام کتب حدیث میں اس کی روایات موجود ہیں۔ یہ شخص قبیلۂ اسلم کا ایک یتیم لڑکا تھا جس نے حضرت ہزال بن نُعیَم کے ہاں پرورش پائی تھی۔ یہاں وہ ایک آزاد کر دہ لونڈی سے زنا کر بیٹھا۔ حضرت ہزّال نے کہا  کہ جا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے اس گناہ کی خبر دے ، شاید کہ آپ تیری لیے دعائے مغفرت  فرمادیں۔ اس نے جا کر مسجد نبوی میں حضورؐ سے کہا یا رسول اللہ، مجھے پاک کر دیجیے ، میں نے زنا کی ہے۔ آپؐ نے منہ پھیر لیا اور فرمایا   ویحک ارجع  فاستغفر اللہ وتب الیہ۔”ارے، چلا جا اور اللہ سے توبہ و استغفار کر“۔ مگر اس نے پھر سامنے آکر وہی بات کہی اور آپؐ نے پھر منہ پھیر لیا۔ اس نے تیسری بار وہی بات کہی اور آپؐ نے پھر منہ پھیر لیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے اس کو متنبہ کیا کہ دیکھ، اب چوتھی بار اگر تُو نے اقرار کیا تو رسول اللہ  تجھے رجم کرا دیں گے۔ مگر وہ نہ مانا اور پھر اس نے اپنی بات دُہرائی۔ اب حضورؐ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور اس فرمایا   لعلک قبلت او غمزت او نظرت،”شاید تُو نے بوس و کنار کیا ہوگا یا چھیڑ چھاڑ کی یہو گی یا نظرِ بد ڈالی ہوگی“ (اور تُو سمجھ بیٹھا ہو گا کہ یہ زنا کا ارتکاب ہے)۔ اس نے کہا نہیں۔ آپؐ نے پوچھا”کیا تُو اُس سے ہم بستر ہُوا؟ “ اس نے کہا ہاں۔ پھرپوچھا”کیا تُو نے اس سے مباشرت کی؟“ اُس نے کہا ہاں۔ پھر پوچھا”کیا تُونے اس سے مجامعت کی؟“ اس نےکہا ہاں۔ پھر آپؐ نے وہ  لفظ استعمال کیا جو عربی زبان میں خاص فعلِ مباشرت ہی کے لیےبولا جاتا ہے، اور یہ فحش لفظ حضورؐ کی زبان سے نہ پہلے کبھی سنا گیا  نہ اس کے بعد کسی نے سُنا۔ اگر ایک شخص کی جان کا معاملہ نہ ہوتا تو زبان مبارک سے کبھی ایسا لفظ نہ  نکل سکتا تھا۔ مگر اس نے اس کے جواب میں بھی ہاں کہہ دیا۔ آپؐ نےپوچھا حتیٰ غاب ذٰلک منک فی  ذٰلک منھا (کیا اس حد تک کہ تیری وہ چیز اس کی اُس چیز میں غائب ہو گئی؟) ۔ اس نے کہا ہاں۔ پھر ، پوچھا کما یغیب المیل فی المکحلۃ والرشاء فی البئر (کیا اس طرح غائب ہوگئی جیسے سُرمہ  دانی میں سلائی اور کنوئیں میں رسّی؟) اس نے کہا ہاں ۔ پوچھا ”کیا تُو جانتا ہے کہ زنا کسے کہتے ہیں؟“ اس نے کہا  ” جی ہاں ، میں نے اس کے ساتھ حرام طریقے سے وہ کام کیا جو شہر حلال طریقے سے اپنی  بیوی کے ساتھ کرتا ہے“۔ آپؐ نے پوچھا” کیا تیری شادی ہو چکی ہے؟“ اس نے کہا”جی ہاں۔“ آپؐ نے پوچھا”تُو نے شراب تو نہیں پی لی ہے؟“ اس نے کہا نہیں۔ ایک شخص نے اُٹھ کر  اس کا منہ  سُونگھا اور تصدیق کی۔ پھر آپؐ نے اس کے محلہ والوں سے دریافت کیا کہ یہ دیوانہ تو نہیں ہے؟ انہوں نے کہا ہم نے اس کی عقل میں کوئی خرابی نہیں دیکھی۔ آپؐ نے ہزّال سے فرمایا  لو سترتہ بثوبک کان خیر الک، کاش تم نے اس کا پردہ ڈھانک دیا ہوتا تو تمہارے لیے اچھا تھا۔ پھر آپؐ  نے ماعز کو رجم کرنے کا فیصلہ صادر فرمادیا  اور اسے شہر کے باہر لے جا کر سنگسار کر دیا گیا۔ جب پتھر پڑنے شروع ہوئے تو ماعِز بھاگا اور اس نے کہا ”لوگو، مجھے رسول اللہ کے پاس واپس لے چلو، میرے قبیلے کے لوگوں نے مجھے مروا دیا۔ انہوں نے مجھے دھوکا دیا کہ رسول اللہ مجھے قتل نہیں کرائیں گے“۔ مگر مارنے والوں نے اسے مار ڈالا۔ بعد میں جب حضورؐ کو اس کی اطلاع دی گئی تو آپؐ نے فرمایا ”تم لوگوں نے اسے چھوڑ کیوں نہیں دیا ، میرے پاس لے آئے ہوتے ، شاید وہ توبہ کر تا اور اللہ اس کی توبہ قبول کر لیتا“۔
دوسرا واقعہ غامِدِیّہ کا ہے جو قبیلہ غامِد (قبیلۂ جُہَینَہ کی ایک شاخ ) کی عورت تھی۔ اُس نے بھی آکر چار مرتبہ اقرار کیا کہ وہ زنا کی مرتکب ہوئی ہے اور اسے ناجائز حمل ہے۔ آپؐ نے اُس سے بھی پہلے اقرار پر فرمایا ویحک ارجعی فاستغفری الی اللہ و توبی الیہ (”اری چلی جا،  اللہ سے معافی مانگ اور توبہ کر“)۔ مگر اس نے کہا ”یا رسول اللہ  کیا آپ نے مجھے ماعز کی طرح ٹالنا چاہتے ہیں۔ میں زنا سے حاملہ ہوں“۔ یہاں چونکہ اقرار کے ساتھ حمل بھی موجود تھا ، اس لیے آپؐ نے اُس قدر مفصّل جرح نہ فرمائی جو ماعز کے ساتھ کی تھی۔ آپؐ نے فرمایا”اچھا، نہیں مانتی تو جا، وضعِ حمل کے بعد آئیو“۔ وضعِ حمل کے بعد وہ بچے کے لے کرآئی اور کہا اب مجھے پاک کر دیجیے۔ آپؐ نے فرمایا ”جا اور اس کو دودھ  پلا۔ دودھ چھوٹنے کے بعد آئیو“۔ پھر وہ دودھ چھٹانے کے بعد آئی اور ساتھ روٹی کا ایک ٹکڑا بھی لیتی آئی ۔ بچے کو روٹی کا ٹکڑا کھلا  کر حضور کو دکھایا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ اب اس کا دودھ چھوٹ گیا ہے اور دیکھیے یہ روٹی کھانے لگا ہے ۔ تب آپؐ نے بچے کو پرورش کے لیے ایک شخص کے حوالے کیا اور اس  کے رجم کا حکم دیا۔
ان دونوں واقعات میں بصر احت چار اقراروں کا ذکر ہے۔ اور ابوداؤد میں حضرت بُرَیدَہ کی روایت ہے کہ صحابۂ کرام  کا عام خیال یہی تھا کہ اگر ماعز اور غامدیہ چار مرتبہ اقرار نہ کرتے تو انہیں رجم نہ کیا جاتا ۔ البتہ تیسرا واقعہ (جس کا ذکر ہم اوپر نمبر ۱۵ میں کر چکے ہیں) اس میں صرف یہ الفاظ ملتے ہیں کہ ” جا کر اس کی بیوی سے پوچھ ، اور اگر وہ اعتراف کرے تو اسے رجم کر دے“۔ اس میں چار اعترافوں کا ذکر نہیں ہے ، اور اسی سے فقہاء کے ایک گروہ نے استدلال کیا ہے کہ ایک ہی اعتراف کافی ہے۔
(۲۱) اوپر ہم نے جن تین مقدمات کی نظیریں پیش کی ہیں ان سے ثابت ہوتا ہے کہ اقراری مجرم سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ اس نے کس سے زنا کا ارتکاب کیا ہے ، کیونکہ اس طرح ایک کے بجائے دو کو سزا دینی پڑے گی، اور شریعت لوگوں کو سزائیں دینے کے لیے بے چین نہیں ہے۔ البتہ اگر مجرم خود یہ بتائے کہ اس فعل کا فریقِ ثانی فلاں ہے تو اس سے پوچھا جائے گا۔ اگر وہ بھی اعتراف کرے تو اسے سزا دی جائے گی۔ لیکن اگر وہ انکار کر  دے تو صرف اقراری مجرم ہی حد کا مستحق ہو گا۔ اس امر میں فقہاء کا اختلاف ہے کہ اِس دوسری صورت میں(یعنی جبکہ فریقِ ثانی اس  کے ساتھ مرتکب زنا ہونے کو تسلیم نہ کرے) اُس پر آیا حدِّ زنا جاری کی جائے گی یا حدِّ قذف۔ امام مالک اور امام شافعی کے نزدیک وہ حدِّ زنا کا مستوجب ہے، کیونکہ اسی جرم کا اس نے اقرار کیا ہے ۔ امام ابوحنیفہ اور امام اوزاعی کی رائے  میں اس پر حدِّ قذف جاری کی جائے گی، کیونکہ فریقِ  ثانی کے انکار نے اس کے جرم ِ زنا کو مشکوک کر دیا ہے،   البتہ اس کا جرمِ قذف بہرحال ثابت ہے ۔ اور امام محمد کا فتویٰ یہ ہے ( امام شافعی کا بھی ایک قول اس کی تائید میں ہے) کہ اسے زنا کی سزا بھی دی جائے گی اور قذف کی بھی، کیونکہ اپنے جرمِ زنا کا وہ خود معترف ہے، اور فریقِ ثانی پر اپنا الزام وہ ثابت نہیں کر سکا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعالت میں اس قسم کا ایک مقدمہ آیا تھا۔ اس کی ایک روایت جو مُسنَد احمد اور ابوداؤد میں سَہل بن سعد سے منقول ہے اس میں یہ الفاظ ہیں:” ایک شخص نے آکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اقرار کیا کہ وہ فلاں عورت  سے زنا کا مرتکب ہوا ہے۔ آپؐ نے عورت کو بلا کر پوچھا۔ اس نے انکار کیا۔ آپؐ نے اس پر حد جاری کی اور عورت کو چھوڑ دیا“۔ اس روایت  میں یہ تصریح نہیں ہے کہ کونسی حد جاری کی۔ دوسری روایت ابوداؤد اور نَسَائی نے ابن عباس سے نقل کی ہے اور اس میں یہ ہے کہ  پہلے اس کے اقرار پر آپؐ نے حدِّ زنا جاری کی ، پھر عورت سے پوچھا اور اس کے انکار پر اس شخص کو حدِّ قذف کے کوڑے لگوائے۔ یکن یہ روایت سند کے لحاظ سے بھی ضعیف ہے ، کیونکہ اس کے ایک راوی قاسم بن فیاض کو متعدد محدثین نے ساقط الاعتبار ٹھیرایا ہے، اور قیاس کے بھی خلاف ہے، اس لیے  نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ آپؐ نے اسے کوڑے لگوا نے کے  بعد عورت سے پوچھا ہوگا۔ صریح عقل اور انصافف کا تقاضا ، جسے حضُورؐ نظر انداز نہیں فرما سکتے تھے، یہ تھا کہ جب اس نے عورت کا نام لے دیا تھا تو عورت سے پوچھے بغیر اس کے مقدمے کا فیصلہ نہ کیا جاتا۔ اسی کی تائید سہل بن سعد والی روایت بھی کر رہی ہے۔ لہٰذا دوسری روایت لائق اعتماد نہیں ہے۔
(۲۲) ثبوت جرم کے بعد زانی اوسر زانیہ کو کیا  سزا دی جائے گی، اس مسئلے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہو گیا ہے ، مختلف فقہاء کے مسلک اس باب میں حسب ذیل ہیں :

شادی شدہ مرد و عورت کے لیے زنا کی سزا :

-----امام احمد ،داؤد ظاہر اور اسحاق بن راہویہ کے نزدیک سو کوڑے  لگانا اور اس کے بعد سنگسار کرنا ہے۔
-----باقی تمام فقہاء اس بات پر متفق ہیں کہ ان کی سزا صرف سنگساری ہے۔ رجم اور سزائے تازیانہ کو جمع نہیں کیا جائے گا۔

غیر شادی شدہ کی سزا :

------امام شافعی ، امام احمد ، اسحاق ، داؤد ظاہری ، سفیان ثوری ، ابن ابی لیلیٰ اور حسن بن صالح کے نزدیک سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی ، مرد عورت ہر دو کے لیے۔
------امام مالک اور اوزاعی کے نزدیک مرد کے لئے ١۰۰ کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی۔ اور عورت کے لئے صرف سو کوڑے۔
(جلا وطنی سے مراد ان سب کے نزدیک یہ ہے کہ مجرم کو اس کی بستی سے نکال کر کم از کم اتنے فاصلے پر بھیج دیا جائے جس پر نماز میں قصر واجب ہوتا ہے۔ مگر زید بن علی اور امام جعفر صادق کے نزدیک قید کر دینے سے بھی جلا وطنی کا مقصد پورا ہو جاتا ہے )
----- امام  ابو حنیفہ اور ان کے شاگرد امام ابو یوسف، امام زُفَر اور امام محمد کہتے ہیں کہ اس صورت میں حد زنا مر اور عورت دونوں کے لیے صرف سو کوڑے ہے۔ اس پر کسی اور سزا، مثلاً قید یا جلا وطنی کا اضافہ حد نہیں بلکہ تعزیر ہے۔ قاضی اگر یہ دیکھے کہ مجرم بد چلن ہے ، یا مجرم اور مجرمہ کے تعلقات بہت گہرے ہیں تو حسب ضرورت وہ انہیں خارج البلد بھی کر سکتا ہے اور قید بھی کر سکتا ہے۔
(حد اور تعزیر میں فرق اس سزا کو کہتے ہیں جو قانون میں بلحاظ مقدار و نوعیت بالکل مقرر نہ کر دی گئی ہو، بلکہ جس میں عدالت حالات مقدمہ کے لحاظ سے کم بیشی کر سکتی ہو)
ان مختلف مسالک میں سے ہر ایک نے مختلف احادیث کا سہارا لیا ہے جن کو ہم ذیل میں درج کرتے ہیں :
          حضرت عبادہ بن صامت کی روایت ، جسے مسلم، ابو داؤد ، ابن ماجہ، ترمذی اور امام احمد نے نقل کیا ہے۔ اس میں یہ الفاظ ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : خذو ا عنی خذو اعنی، قد جعل اللہ لھن سبیلا، البکر بالبکر جلد ماۃ و تعریب عام و الثیب بالثیب جلد مأۃ والرجم(اور می بالحجارۃ۔ او رجم با لحجارۃ) ’’ مجھ سے لو، مجھ سے لو، اللہ نے زانیہ عورتوں کے لیے طریقہ مقرر کر دیا۔ غیر شادی شدہ مرد کی غیر شادی شدہ عورت سے بد کاری کے لیے سو کوڑے اور ایک سل کی جلا وطنی، اور شادی شدہ عورت سے بد کاری کے لیے سو کوڑے اور سنگساری‘‘(یہ حدیث اگر چہ سنداً صحیح ہے ، مگر روایات صحیحہ کا ایک جم غفیر ہے جو ہمیں بتاتا ہے کہ اس پر نہ عہد نبوی میں کبھی عمل ہوا ، نہ عہد خلفائے راشدین میں ، اور نہ فقہاء میں سے کسی نے ٹھیک اس کے مضمون کے مطابق فتویٰ دیا۔ فقہ اسلامی میں جو بات متفق علیہ ہے وہ یہ ہے کہ زانی اور زانیہ کے محصن اور غیر محصن ہونے کا الگ الگ اعتبار کیا جائے گا۔ غیر شادی شدہ مرد خواہ شادی شدہ عورت سے زنا کرے یا غیر شادی شدہ ہر دو حالتوں میں اس کو ایک ہی سزا دی جائے گی۔ یہی معاملہ عورت کا بھی ہے۔ وہ شادی شدہ ہو تو ہر حالت میں ایک ہی سزا پائے گی خواہ اس سے زنا کرنے والا مرد شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ اور باکرہ ہونے کی صورت میں بھی اس کے لیے ایک ہی سزا ہے بلا اس لحاظ کے کہ اس کے ساتھ زنا کرنے والا محصن ہے یا غیر محصن)،
حضرت ابو ہریرہؓ اور حضرت زید بن خالد جہنی کی روایت ، جسے بخاری ، مسل ابو داؤد ، ترمذی ، نسائی، ابن ماجہ اور امام احمد نے نقل کیا ہے۔ اس میں یہ ہے کہ دو اعرابی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس مقدمہ لائے۔ ایک نے کہا کہ میرا بیٹا اس شخص کے ہاں اجرت پر کام کرتا تھا۔ وہ اس کی بیوی سے ملوث ہو گیا۔ میں نے اس کو سو بکریاں اور ایک لونڈی دے کر راضی کیا۔ مگر ہل علم نے بتایا کہ یہ کتاب اللہ  کے خلاف ہے۔ آپ ہمارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ فرما دیں اور دوسرے نے بھی کہا کہ آپ کتاب اللہ مطابق فیصلہ فرما دیں۔ حضورؐ نے فرمایا میں کتاب اللہ ہی کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ بکریاں اور لونڈی تجھی کو واپس۔ تیرے بیٹے کے لیے سو کوڑے اورت ایک سال کی جلا وطنی۔ پھر آپ نے قبیلہ اسلم کے ایک شخص سے فرمایا اسے انیس ، تو جا کر اس کی بیوی سے پوچھ۔ اگر وہ اعتراف کرے تو اسے رجم کر دے۔ چنانچہ اس نے اعتراف کیا اور رجم کر دی گئی۔ (اس میں رجم سے پہلے کوڑے لگانے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اور غیر شادی شدہ مرد کو شادی شدہ عورت سے بدکاری کرنے پر تازیانے اور جلا وطنی کی سزا دی گئی ہے )۔ ماعز اور غامدیہ کے مقدمات کی جتنی رودادیں احادیث کی مختلف کتابوں میں مروی ہیں ان میں سے کسی میں بھی یہ نہیں ملتا کہ حور نے رجم کرانے سے پہلے ان کو سو کوڑے بھی لگوائے ہوں۔
کوئی روایت کسی حدیث میں نہیں ملتی کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے کسی مقدمے میں رجم کے ساتھ سزائے تازیانہ کا بھی فیصلہ فرمایا ہو۔ زنا بعد احصان کے تمام مقدمات میں آپ نے صرف رجم کی سزا دی ہے۔
حضرت عمرؓ کا مشہور خطبہ جس میں انہوں نے پورے زور سے ساتھ زنا بعد احصان کی سزا رجم بیان کی ہے ، بخاری و مسلم اور ترمذی و نسائی نے مختلف سندوں سے نقل کیا ہے اور امام احمد نے بھی اس کی متعدد روایتیں لی ہیں ، مگر اس کی کسی روایت میں بھی رجم مع سزائے تازیانہ کا ذکر نہیں ہے۔
خلفائے راشدین میں سے صرف حضرت علیؓ نے سزائے تازیانہ اور سنگساری کو ایک سزا میں جمع کیا ہے۔ امام احمد اور بخاری عمر شعبی سے یہ واقعہ نقل کر تے ہیں کہ ایک عورت شراحَہ نامی نے نا جائز حمل کا اعتراف کیا، حضرت علیؓ نے جمعرات کے روز اسے کوڑے لگوائے اور جمعہ کے روز اس کو رجم کرایا، اور فرمایا ہم نے اسے کتاب اللہ کے مطابق کوڑے لگائے ہیں اور سنت رسول اللہ کے مطابق سنگسار کرتے ہیں۔ اس ایک واقعہ کے سوا عہد خلافت راشدہ کا کوئی دوسرا واقعہ رجم مع تازیانہ کے حق میں نہیں ملتا۔
جابر بن عبداللہ کی ایک روایت ، جسے ابو داؤد اور ندائی نے نقل کیا ہے ، یہ بتاتی ہے کہ ایک شخص زنا کا مرتکب ہوا اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو صرف سزا ئے تازیانہ دی ، پھر معلوم ہوا کہ وہ شادی شدہ تھا، تب آپ نے صرف سزائے تازیانہ دی، مثلاً وہ شخص جس نے نماز کے لیے جاتی ہوئی عورت سے زنا بالجبر کی تی، اور وہ شخص جس نے زنا کا اعتراف کیا اور عورت نے انکار کیا۔
حضرت عمرؓ نے زبیعہ بن امیہ بن خلف کو شراب نوشی کے جرم میں جلا وطن کیا اور وہ بھاگ کر رومیوں سے جا ملا۔ اس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ آئندہ میں کسی کو جلا وطنی  کی سزا نہیں دوں گا۔ اسی طرح حضرت علیؓ نے غیر شادی شدہ مرد و عورت کو زنا کے جرم میں جلا وطن کنے سے نکار کر دیا، اور فرمایا کہ اس میں فتنے کا اندیشہ ہے (احکام القرآن ، جصاص ، جلد3، صضحہ 315 )۔
ان تمام روایات پر مجموعی نظر ڈالنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ امام ابو حنیفہؓ اور ان کی اصحاب کا مسلک ہی صحیح ہے ، یعنی زنا بعد احصان کی حد صرف رجم ہے ، اور محض زنا کی حد صرف 100 کوڑے۔ تازیانے اور رجم کو جمع کرنے کرنے پر تو عہد نبوی سے لے کر عہد عثمانی تک کبھی عمل ہی نہیں ہوا۔ رہا تازیانے اور جلا وطنی کو جمع کرنا ، تو اس پر کبھی عمل ہوا ہے اور کبھی نہیں ہوا۔ اس سے مسلک حنفی کی صحت صاف ثابت  ہو جاتی ہے۔
۲۳) :ضرب تازیانہ کی کیفیت کے متعلق پہلا اشارہ خود قرآن کے لفظ : فَاجْلِوُ وْ ا میں ملتا ہے۔ جَلد کا لفظ جِلد(یعنی کھال ) سے ماخوذ ہے۔ اس سے تمام اہل لغت اور علمائے تفسیر نے یہی معنی لیے ہیں کہ مار ایسی ہونی چاہیے جس کا اثر جِلد تک رہے ، گوشت تک نہ پہنچے۔ ایسی ضرب تازیانہ جس سے گوشت کے ٹکڑے اڑ جائیں ، یا کھال پھٹ کر اندر تک زخم پڑ جائے ، قرآن کے خلاف ہے۔
مار کے لیے خواہ کوڑا استعمال کیا جائے یا بید، دونوں صورتوں میں وہ اوسط درجے کا ہونا چاہیے۔ نہ بہت موٹا اور سخت۔ اور نہ بہت پتلا اور نرم۔ مؤطّا میں امام مالکؒ کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ضرب تازیانہ کے لیے کوڑا طلب کیا اور وہ کثرت استعمال سے بہت کمزور ہو چکا تھا۔ آپ نے فرمایا : فوق ھٰذا (اس سے زیادہ سخت لاؤ)۔ پھر ایک نیا کوڑا لایا گیا ، جو ابھی استعمال سے نرم نہیں پڑا تھا۔ آپ نے فرمایا دونوں کے درمیان۔ پھر ایسا کوڑا لایا گیا جو سواری میں استعمال ہو چکا تھا / اس سے آپ نے ضرب لگوائی۔ اسی مضمون سے ملتی جلتی روایت ابو عثمان الجہدی نے حضرت عمرؓ کے متعلق بھی بیان کی ہے کہ وہ اوسط درجے کا کوڑا استعمال کرتے تھے۔ (احکام القرآن جصاص۔ ج 3۔ ص 322 )۔ گرہ لگا ہوا کوڑا یا دوشاخہ سہ شاخہ کوڑا بھی استعمال کرنا ممنوع ہے۔
ماربھی اوسط درجے کی ہونی چاہیے۔ حضرت عمرؓ مار نے والے کو ہدایت کرتے تھے کہ : لا ترفع (یا لا تخرج) ابطک۔ ’’ اسطرح مار کہ تیری بغل نہ کھلے ‘‘۔ یعنی پوری طاقت سے ہاتھ کو تان کر نہ مار(احکام القرآن ابن عربی۔ ج 2 ص 84۔ احکام القرآن جصاص ، ج 3۔ ص 322)۔ تمام فقہاء اس پر متفق ہیں کہ ضرب مبرح نہیں ہونی چاہیے ، یعنی زخم ڈال دینے والی۔ ایک ہی جگہ نہیں مارنا چاہی بلکہ تمام جسم پر مار کو پھیلا دینا چاہیے۔ صرف منہ اور شرم گاہ کو (اور حنفیہ کے نزدیک سر کو بھی) بچا لینا چاہیے ، باقی ہر عضو پر کچھ نہ کچھ مار پڑنی چاہیے۔ حضرت علیؓ نے ایک شخص کو کوڑے لگواتے وقت فرمایا ’’ ہر عضو کو اس کا حق دے اور صرف منہ اور شرمگاہ کو بچا لے ‘‘۔ دوسری روایت میں ہے ’’ صرف سر اور شرمگاہ کو بچالے ‘‘(احکام القرآن جصاص ، ج 3۔ ص 321)۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے اذا ضرب احد کم فلیتق لوجہ۔ ’’جب تم میں سے کوئی مارے تو منہ پر نہ مارے ‘‘(ابو داؤد)۔
مرد کو کھڑا کر کے مارنا چاہیے اور عورت کو بٹھا کر۔ امام ابو حنیفہ کے زمانے میں کوفے کے قاضی ابن ابی لیلی نے ایک عورت کو کھڑا کر کے پٹوایا۔ اس پر امام ابو حنیفہ نے سخت گرفت کی اور علانیہ ان کے فیصلے کو غلط ٹھیرایا (اس سے قانون توہین عدالت کے معاملے میں بھی امام صاحب کے مسلک پر روشنی پڑتی ہے )۔ ضرب تازیانہ کے وقت عورت اپنے پورے کپڑے پہنے رہے گی ، بلکہ اس کے پکڑے اچھی طرح باندھ دیے جائیں گے تاکہ اس کا جسم کھل نہ جائے صرف موٹے کپڑے اتروا دیے جائیں گے۔ مرد کے معاملے میں اختلاف ہے۔ بعض فقہا کہتے ہیں وہ صرف پاجامہ پہنے رہے گا، اور بعض کہتے ہیں کہ قمیض بھی نہ اُتروایا جائے گا۔ حضرت ابو عبیدہ بن الجراح نے ایک زانی کو سزائے تازیانہ کا حکم دیا اس نے کہا ’’ اس گناہ گار جسم کو اچھی طرح مار کھانی چاہیے ‘‘ ، اور یہ کہ ہ گر وہ قمیص اتارنے لگا۔ حضرت ابو عبیدہ نے فرمایا’’ اسے قمیص نہ اتارنے دو‘‘۔ (احکام القرآن جصاص ، ج 3۔ ص 322)۔ حضرت علی کے زمانے میں ایک شخص کو کوڑے لگوائے گئے اور وہ چادر اوڑھے ہوئے تھا۔
سخت سردی اور سخت گرمی کے وقت مارنا ممنوع ہے۔ جاڑے میں گرم وقت اور گرمی میں ٹھنڈے وقت مارنے کا حکم ہے۔
باندھ کر مارنے کی بھی اجازت نہیں ہے ، الا یہ کہ مجرم بھاگنے کی کوشش کرے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرمانے ہیں لا یحل فی ھٰذہ الا مۃ تضرید ولا مدّ۔ ‘‘اس امت میں ننگا کر کے اور ٹکٹکی پر باندھ کر مارنا حلال نہیں ہے۔
فقہاء نے اس کو جائز رکھا ہے کہ روزانہ کم از کم بیس بیس کوڑے مارے جائیں۔ لیکن اولیٰ یہی ہے کہ بیک وقت پوری سزا دے دی جائے۔
مار کا کام اجڈ جلادوں سے نہیں لینا چاہیے بلکہ صاحب علم و بصیرت آدمیوں کو یہ خدمت انجام دینی چاہیے جو جانتے ہوں کہ شریعت کا تقاضا پورا کرنے کے لیے کس طرح مارنا منا سب ہے۔ ابن قیم نے زاد المعاد میں لکھا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں حضرت علی، حضرت زبیر ، مقداد بن عمرو، محمد بن مسلمہ، عاصم بن ثابت اور ضحاک بن سفیان جیسے صلحاءو معززین سے جلادی کی خدمت لی جاتی تھی(ج 1۔ ص 44۔ 45)۔
اگر مجرم مریض ہو، اور اس کے صحت یاب ہونے کی امید نہ ہو، یا بہت بوڑھا ہو تو سو شاخوں والی ایک ٹہنی ، یا سوتیلیوں والی ایک جھاڑو لے کر صرف ایک دفعہ کار دینا چاہے تاکہ قانون کا تقاضا پورا کر دیا جائے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں ایک بوڑھا مرض زنا کے جرم میں پکڑا گیا تھا اور آپ نے اس کے لیے یہی سزا تجویز فرمائی تھی (احمد، ابو داؤد ، نسائی، ابن ماجہ)۔ حاملہ عورت کو سزا ئے تازیانہ دینی ہو تو وضع حمل کے بعد نفاس کا زمانہ گزر جانے تک انتظار کرنا ہوا۔ اور رجم کرنا ہو تو جب تک اس کے بچے کا دودھ نہ چھوٹ جائے ، سزا نہیں دی جا سکتی۔
اگر زنا شہادتوں سے ثابت ہو تو گواہ ضرب کی ابتدا کریں گے ، اور اگر اقرار کی بنا پر سزا دی جا رہی ہو تو قاضی خود ابتدا کرے گا، تاکہ گواہ اپنی گواہی کو اور جج اپنے فیصلوں کو کھیل نہ سمجھ بیٹھیں۔ شراحہ کے مقدمے میں جب حضرت علیؓ نے رجم کا فیصلہ کیا تو فرمایا’’ اگر اس کے جرم کا کوئی گواہ ہوتا تو اسی کا مار کی ابتدا کرنی چاہیے تھی ، مگر اس کو اقرار کی بنا پر سزا دی جا رہی ہے اس اس لیے میں خود ابتدا کروں گا‘‘۔ حنیفہ کے نزدیک ایسا کرنا واجب ہے۔ شافعیہ اس کو واجب نہیں مانتے ، مگر سب کے نزدیک اولیٰ یہی ہے۔
ضرب تازیانہ کے قانون کی ان تفصیلات کو دیکھیے اور پھر ان لوگوں کی جرأت کی داد دیجیے جو اسے تو وحشیانہ سزا کہتے ہیں ، مگر وہ سزائے تازیانہ ان کے نزدیک بڑی مہذب سزا ہے جو آج جیلوں میں دی جا رہی ہے۔ موجودہ قانون کی رو سے صرف عدالت ہی نہیں ، جیل کا ایک معمولی سپرنٹنڈنٹ بھی ایک قیدی کو حکم عدولی یا گستاخی کے قصور میں 30 ضرب بید تک کی سزا دینے کا مجاز ہے۔ یہ بید لگانے کے لیے ایک آدمی خاص طور پر تیار کیا جاتا ہے اور وہ ہمیشہ اس کی مشق کرتا رہتا ہے۔ اس غرض کے لیے بید بھی خاص طور پر بھگو بھگو  کر تیار کیے جاتے ہیں تاکہ جسم کو چھری کی طرح کاٹ دیں۔ مجرم کو ننگا کر کے ٹکٹکی سے باندھ دیا جاتا ہے تاکہ وہ تڑپ بھی نہ سکے۔ صرف ایک پتلا سا کپڑا اس کے ستر کو چھپانے کے لیے رہنے دیا جاتا ہے اور وہ ٹنکچر آیوڈین سے بھگو دیا جاتا ہے۔ جلاد دور سے بھاگتا ہوا آتا ہے اور پوری طاقت سے مارتا ہے ضرب ایک ہی مخصوص حصہ جسم (یعنی سُرین) پر مسلسل لگائی جاتی ہے یہاں تک کہ گوشت قیمہ ہو کر اڑتا چلا جاتا ہے اور بسا اوقات ہڈی نظر آنے لگتی ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ طاقت ور سے طاقت ور آدمی بھی پورے تیس بید کھانے سے پہلے ہی بے ہوش ہو جاتا ہے اور اس کے زخم بھرنے میں ایک مدت لگ جاتی ہے۔ اس ’’مہذب‘‘ سزا کو جو لوگ آج جیلوں میں خود نافذ کر رہے ہیں ان کا یہ منہ ہے کہ اسلام کی مقرر کی ہوئی سزائے تازیانہ کو ’’وحشیانہ‘‘ سزا کے نام سے یاد فرمائیں ، پھر ان کی پولیس ثابت شدہ مجرموں کو نہیں بلکہ محض مشتبہ لوگوں کو تفتیش کی خاطر (خصوصاً سیاسی جرائم کے شبہات میں )جیسے جیسے عذاب دیتی ہے وہ آج کسی سے چھپے ہوئے نہیں ہیں۔
۲۴) : رجم کی سزا میں جب مجرم مر جائے تو پھر اس سے پوری طرح مسلمانوں کا سا معاملہ کا جائے گا۔ اس کی تجہیز و تکفین کی جائے گی۔ اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی۔ اس کو عزت کے ساتھ مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے گا۔ اس کے حق میں دعائے مغفرت کی جائے گی اور کسی کے لیے جائز نہ ہو گا کہ اس کا ذکر برائی کے ساتھ کرے۔ بخاری میں جابر بن عبداللہ انصاری کی روایت ہے کہ جب رجم سے ماعز  بن مالک کی موت واقع ہو گئی تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو خیر سے یاد فرمایا اور اس کی نماز جنازہ خود پڑھائی‘‘۔ مسلم میں حضرت بریدہ کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا: اسْتغفرو ا لما عزبن مالک۔ ۔ لقد تاب توبۃ لو قسمت بین امۃ لو سعتھم،’’ ماعزبن مالک کے حق میں دعائے مغفرت کرو، اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر ایک پوری امت پر تقسیم کر دی جائے تو سب کے لیے کافی ہو‘‘۔ اسی روایت میں یہ بھی ذکر ہے کہ غامدیہ جب رجم سے مر گئی تو حضورؐ نے خود اس کی نماز جنازہ پڑھائی، اور جب حضرت خالد بن ولید نے اس کا ذکر برائی سے کیا تو آپ نے فرمایا : مھلا یا خالد، فوالزی نفسی بیدہٖ لقد تابت توبۃ لو تابھا صاحب مکس الغفرلہ  ’’ خالد اپنی زبان روکو، اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے ، اس نے ایسی توبہ کی تھی کہ اگر ظالمانہ محصول وصول کرنے والا بھی وہ توبہ کرتا تو بخش دیا جاتا‘‘۔ ابوداؤد میں حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت ہے کہ ماعز کے واقعہ کے بعد ایک روز حضورؐ راستے سے گزر رہے تھے۔ آپ نے دو شخصوں کو ماعز کا ذکر برائی سے کرتے سنا۔ چند قدم آگے جا کر ایک گدھے کی لاش پڑی نظر آئی۔ حضورؐ ٹھیر گئے اور ان دونوں آدمیوں سے کہا ’’ آپ حضرات اس میں سے کچھ نوش جان فرمائیں ‘‘۔ انہوں نے عرض کیا ’’ یا نبی اللہ اسے کون کھا سکتا ہے ‘‘۔ آپ نے  فرمایا ’’ اپنے بھائی ی آبرو سے جو کچھ آپ ابھی تناول فرما رہے تھے وہ اسے کھانے کی بہ نسبت بدر تر چیز تھی‘‘۔ مسلم میں عمران بن حصین کی روایت ہے کہ حضرت عمرؓ نے غامدیہ کی نماز جنازہ کے موقع پر عرض کیا یا رسول اللہ، کیا اب اس زانیہ کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی؟ آپ نے فرمایا : لقد تابت توبۃ لو قسمت بین اھل المدینہ لو سعتھم، ’’ اس نے وہ توبہ کی ہے کہ اگر تمام اہل مدینہ پر تقسیم کر دی جائے تو سب کے لیے کافی ہو‘‘۔ بخاری میں حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت ہے کہ ایک شخص کو شراب نوشی کے جرم میں سزا دی جا رہی تھی۔ کسی کی زبان سے نکلا ’’ خدا تجھے رسوا کرے ‘‘۔ اس پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ’’ اس طرح نہ کہو ، اس کے خلاف شیطان کی مدد نہ کرو‘‘۔ ابو داؤد میں اس پر اتنا اور اضافہ ہے حضورؐ نے فرمایا’’ بلکہ یوں کہ : اللہمَّ اغفرلہ ، اللہمَّ ارحمہ۔ ’’ خدایا اسے معاف کر دے ، خدایا اس پر رحم کر‘‘۔ یہ ہے اسلام میں سزا کی اصل روح۔ اسلام کسی بڑے سے بڑے مجرم کو بھی دشمنی کے جذبے سے سزا نہیں دیتا بلکہ خیر خواہی کے جذبے سے دیتا ہے ، اور جب سزا دے چکتا ہے تو پھر اسے رحمت و شفقت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ یہ کم ظرفی صرف موجودہ تہذیب نے پیدا کی ہے کہ حکومت کی فوج یا پولیس جسے مار دے ، اور کوئی عدالتی تحقیقات جس کے مارنے کو جائز ٹھیرا دے ، اس کے متعلق یہ تک گوارا نہیں کیا جاتا کہ کوئی اس کا جنازہ اٹھائے یا کیس کی زبان سے اس کا ذکر خیر سنا جائے۔ اس پور اخلاقی جرأت ( یہ موجودہ تہذیب میں ڈھٹائی کا مہذب نام ہے ) کا یہ عالم ہے کہ دنیا کو رواداری کے وعظ سنائے جاتے ہیں۔
۲۵) : محرمات سے زنا کے متعلق شریعت کا قانون تفہیم القرآن جلد اول صفحہ 336 پر ، اور عمل قوم لوط کے متعلق شرعی فیصلہ تفہیم القرآن جلد دوم صفحہ 51۔ 54 پر بیان کیا جا چکا ہے۔ رہا جانور سے فعل بد، تو بعض فقہاء اس کو بھی زنا کے حکم میں شمار کرتے ہیں اور اس کے مرتکب کو حد زنا کا مستحق ٹھیراتے ہیں ، مگر امام ابوحنیفہ، امام ابو یوسف، امام محمد، امام زفر امام مالک اور امام شافعی کہتے ہیں کہ یہ زنا نہیں ہے اس لیے اس کا مرتکب تعزیر کا مستحق ہے کہ حد زنا کا۔ تعزیر کے متعلق ہم پہلے بیان کر آئے ہیں کہ اس کا فیصلہ قاضی کی رائے پر چھوڑ ا گیا ہے ، یا مملکت کی مجلد شوریٰ  ضرورت سمجھے تو اس کے لیے کوئی منا سب شکل خود تجویز کر سکتی ہے۔