اس رکوع کو چھاپیں

سورة النور حاشیہ نمبر١۴

 ’’اللہ کے نزدیک ‘‘ یعنی اللہ کے قانون میں ، اللہ کے  قانون کے مطابق۔ ورنہ ظاہر ہے کہ اللہ کے علم میں تو الزام بجائے خود جھوٹا تھا ، اس کا جھوٹ ہونا اس بات پر مبنی نہ تھا کہ یہ لوگ گواہ نہیں لائے ہیں۔
اس جگہ کسی شخص کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ یہاں الزام کے غلط ہونے کی دلیل اور بنیاد محض گواہوں کی غیر موجودگی کو ٹھیرایا جا رہا ہے۔ اور مسلمانوں سے کہا جا رہا ہے کہ تم بھی صرف اس وجہ سے اس کو صریح بہتان قرار دو کہ الزام لگانے والے چار گواہ نہیں لائے ہیں۔ یہ غلط فہمی اس صورت واقعہ کو نگاہ میں نہ رکھنے سے پیدا ہوتی ہے جو فی الواقع وہاں پیش آئی تھی۔ الزام لگانے والوں نے الزام اس وجہ سے نہیں لگایا تھا کہ انہوں نے ، یا ان میں سے کسی شخص نے وہ بات دیکھی تھی جو وہ زبان سے نکال رہے تھے ، بلکہ صرف اس بنیاد پر انتا بڑ الزام تصنیف کر ڈالا تھا کہ حضرت عائشہؓ قافلے سے پیچھے رہ گئی تھیں اور صفوان بعد میں ان کو اپنے اونٹ پر سوار کر کے قافلے میں لے آئے۔ کوئی صاحب عقل آدمی بھی اس موقع پر یہ تصور نہیں کر سکتا تھا کہ حضرت عائشہ کا اس طرح پیچھے رہ جانا، معاذ اللہ کسی ساز باز کا نتیجہ تھا۔ ساز باز کرنے والے اس طریقہ سے تو ساز باز نہیں کیا کرتے  کہ سالار لشکر کی بیوی چپکے سے قافلے کے پیچھے ایک شخص کے ساتھ رہ جائے اور پھر وہی شخص اس کو اپنے اونٹ پر بتھا کر دن دہاڑے ، ٹھیک دوپہر کے وقت لیے ہوئے علانیہ لشکر کے پڑاؤ پر پہنچے۔ یہ صورت حال خود ہی ان دونوں کی معصومیت پر دلالت کر رہی تھی۔ اس حالت میں اگر الزام لگایا جا سکتا تھا تو صرف اس بنیاد پر ہی لگایا جا سکتا تھا کہ کہنے والوں نے اپنی آنکھوں سے کوئی معاملہ دیکھا ہو۔ ورنہ قرائن ، جن پر ظالموں نے الزام کی بنا رکھی تھی ، کسی شک و شبہ کی گنجائش نہ رکھتے تھے۔