اس رکوع کو چھاپیں

سورة النور حاشیہ نمبر١١

 یعنی عبد اللہ بن ابی جو اس الزام  کا اصل مصنف اور فتنے کا اصل بانی تھا۔ بعض روایات میں غلطی سے حضرت حسان بن ثابت کو اس آیت کا مصداق بتایا گیا ہے ، مگر یہ راویوں کی اپنی ہی غلط فہمی ہے ورنہ حضرت حسان کی کمزوری اس سے زیادہ کچھ نہ تھی کہ وہ منافقوں کے پھیلائے ہوئے اس فتنہ میں مبتلا ہو گئے۔ حافظ ابن کثیر نے صحیح کہا ہے کہ اگر یہ روایت بخاری میں نہ ہوتی تو قابل ذکر تک نہ تھی۔ اس سلسلے میں سب سے بڑا جھوٹ ، بلکہ بہتان یہ ہے کہ بنی عمیہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس آیت کا مصداق قرار دیا۔ بخاری، طبرانی، اور بیہقی میں ہشام بن عبدالملک اُمَوی کا یہ قول ،منقول ہے کہ : الذی تو تیٰ کبرہٗ  کے مصداق علی بن ابی طالب ہیں۔ حالانکہ حضرت علیؓ کا سرے سے اس فتنے میں کوئی حصہ ہی نہ تھا۔ بات صرف اتنی تھی کہ انہوں نے جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو بہت پریشان  دیکھا تو حضورؐ کے مشورہ لینے پر عرض کر دیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس معاملہ میں آپ پر کوئی تنگی تو نہیں رکھی ہے۔ عورتیں بہت ہیں۔ آپ چاہیں تو عائشہ کو طلاق دے کر دوسرا نکاح کر سکتے ہیں۔ اس کے یہ معنی ہر گز نہ تھے کہ حضرت علیؓ نے اس الزام کی تصدیق فرمائی تھی جو حضرت عائشہ پر لگایا جا رہا تھا۔ ان کا مقصد صرف آں حضرتؐ کی پریشانی کو رفع کرنا تھا۔