اس رکوع کو چھاپیں

سورة النور حاشیہ نمبر١۰۲

 اصل میں لفظ دُعَآء استعمال ہوا ہے جس کے معنی بُلانے کے بھی ہیں اور دعا کرنے اور پکارنے کے بھی۔ نیز دُعَآءَ الرَّسُوْلِ کے معنی رسول کا بلا نا یا دُعاء کرنا بھی ہو سکتا ہے اور رسول کو پکارنا بھی۔ ن مختلف معنوں کے لحاظ سے آیت کے تین مطلب ہو سکتے ہیں اور تینوں ہی صحیح و معقول ہیں :
اول یہ کہ ’’ رسول کے بُلانے کو عام آدمیوں کیں سے کسی کے بلانے کی طرح نہ سمجھو‘‘ یعنی رسول کا بلاوا غیرمعمولی اہمیت رکھتا ہے۔ دوسرا کوئی بلائے اور تم لبیک نہ کہو تو تمہیں آزادی ہے ، لیکن رسول بلائے اور تم  نہ جاؤ ، یا دل میں ذرہ برابر بھی تنگی محسوس کرو تو ایمان کا خطرہ ہے۔
دوم یہ کہ ’’ رسول کی دعا کو عام آدمیوں کی سی دعا نہ سمجھو‘‘ وہ تم سے خوش ہو کر دعا دیں تو تمہارے لیے اس سے بڑی کوئی نعمت نہیں ، اور ناراض ہو کر بد دعا دے دین تو تمہاری اس سے بڑھ کر کوئی بد نصیبی نہیں۔
سوم یہ کہ ’’ رسول کا پکارنا عام آدمیوں کے ایک دوسرے کو پکارنے کی طرح نہ ہونا چاہیے ‘‘۔ یعنی تم عام آدمیوں کو جس طرح ان کے نام لے کر بآواز بلند پکارتے ہو اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو نہ پکارا کرو۔ اس معاملے میں ان کا انتہائی ادب ملحوظ رکھنا چاہیے ، کیونکہ ذرا سی بے ادبی بھی اللہ کے ہاں مواخذے سے نہ بچ سکے گی۔
یہ تینوں مطلب اگرچہ معنی کے لحاظ سے صحیح ہیں اور قرآن کے الفاظ تینوں کو شامل ہیں ، لیکن بعد کے مضمون سے پہلا مطلب ہی مناسبت رکھتا ہے۔