مطلب یہ ہے کہ گھبراؤ نہیں ، منافقین نے اپنی دانست میں تو یہ بڑے زور کا وار تم پر کیا ہے مگر ان شاء اللہ یہ ان ہی پر الٹا پڑے گا اور تمہارے لیے فید ثابت ہو گا۔ جیسا کہ ہم دیباچے میں بیان کر آئے ہیں ، منافقین نے یہ شو شہ اس لیے چھوڑا تھا کہ مسلمانوں کو اس میدان میں شکست دین جو ان کے تفوق کا اصل میدان تھا، یعنی اخلاق جس میں فائق ہونے ہی کی وجہ سے وہ ہر میدان میں اپنے حریفوں سے بازی لیے جا رہے تھے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کو بھی مسلمانوں کے لیے سبب خیر بنا دیا۔ اس موقع پر ایک طرف نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ، دوسری طرف حضرت ابو بکر اور ان کے خاندان والوں نے ، اورع تیسری طرف عام اہل ایمان نے جو طرز عمل اختیار کیا اس سے یہ بات روز روشن کی طرح ثابت ہو گئی کہ یہ لوگ برائی سے کس قدر پاک، کیسے ضابطہ و متحمل ، کیسے انصاف پسند اور کس درجہ کریم النفس واقع ہوئے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ایک اشارہ ان لوگوں کی گردنیں اڑا دینے کے لیے کافی تھا جنہوں نے آپ کی عزت پر یہ حملہ کیا تھا ، مگر مہینہ بھر تک آپ صبر سے سب کچھ برداشت کرتے رہے ، اور جب اللہ کا حکم آگیا تو صرف ان تین مسلمانوں کو ، جن پر جرم قذف ثابت تھا، حد لگوا دی، منافقین کو پھر بھی کچھ نہ کہا۔ حضرت ابو بکر کا اپنا رشتہ دار ، جس کی اور جس کے گھر بھر کی وہ کفالت بھی فرماتے تھے ، ان کے دل و جگر پر یہ تیر چلاتا رہا، مگر اللہ کے اس نیک بندے نے اس پر ابھی نہ برادری کا تعلق منقطع کیا، نہ اس کی اور اس کے خاندان کی مدد ہی بند کی۔ ازواج مطہرات میں سے کسی نے بھی سوکن کی بد نامی میں ذرہ برابر حصہ نہ لیا، بلکہ کسی نے اس پر ادنیٰ درجے میں بھی اپنی رضا اور پسند کا ، یا کم از کم قبولیت کا اظہار تک نہ کیا۔ حتیٰ کہ حضرت زینب کی سگی بہن حمنہ بنت جحش محض ان کی خاطر ان کی سوکن کو بدنام کر رہی تھیں ، مگر خود انہوں نے سوکن کے حق میں کلمہ خیر ہی کہا۔ حضرت عائشہ کی اپنی روایت ہے کہ ازواج رسول اللہ میں سب سے زیادہ زینب ہی سے میرا مقابلہ رہتا تھا، مگر واقعہ افک کے سلسلے میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے پوچھا کہ عائشہ کے متعلق تم کیا جانتی ہو تو انہوں نے کہا یا رسول اللہ، خدا کی قسم، میں اس کے اندر بھلائی کے سوا اور کچھ نہیں جانتی۔ حضرت عائشہ کی اپنی شرافت نفس کا حال یہ تھا کہ حضرت حسان بن ثابت نے انہیں بد نام کرنے میں نمایاں حصہ لیا، مگر وہ ہمیشہ ان کے ساتھ عزت اور تواضع ہی سے پیش آتی رہیں۔ لوگوں نے یاد دلایا کہ یہ تو وہ شخص ہے جس نے آپ کو بد نام کیا تھا تو یہ جواب دے کر ان کا منہ بند کر دیا کہ یہ وہ شخص ہے جو دشمن اسلام شعراء کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور اسلام کی طرف سے منہ توڑ جواب دیا کرتا تھا۔ یہ تھا ان لوگوں کا حال جن کا اس معاملے سے براہ راست تعلق تھا۔ اور عام مسلمانوں کی پاکیزہ نفسی کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ حضرت ابو ایوب انصاری سے ان کی بیوی نے جب ان افواہوں کا ذکر کیا تو وہ کہنے لگے ’’ ایوب کی ماں ‘‘ اگر تم عائشہ کی جگہ اس موقع پر ہوتیں تو کیا ایسا فعل کرتیں ‘‘؟ وہ بولیں ‘‘ خدا کی قسم میں یہ حرکت ہر گز نہ کرتی‘‘۔ حضرت ابو ایوب نے کہا’’ تو عائشہ تم سے بدر جہا بہتر ہیں۔ اور میں کہتا ہوں کہ اگر صفوان کی جگہ میں ہوتا تو اس طرح کا خیال تک نہ کر سکتا تھا، صفوان تو مجھ سے اچھا مسلمان ہے ‘‘۔ اس طرح منافقین جو کچھ چاہتے تھے ، نتیجہ اس کے بالکل برعکس نکلا اور مسلمانوں کا اخلاقی تفوق پہلے سے زیادہ نمایاں ہو گیا۔ |