اس رکوع کو چھاپیں

سورة الموٴمنون حاشیہ نمبر۵۰

اس مقام پر آغازِ سورہ کی آیتوں پر پھر ایک نگاہ ڈالی لیجیے۔ اُسی مضمون کو اب پھر ایک دوسرے انداز سے دُہرایا جا رہا ہے ۔ یہ لوگ”فلاح“ اور ”خیر“ اور ”خوشحالی“ کا ایک محدود مادّی تصور رکھتے تھے۔ ان کے نزدیک جس نے اچھا کھانا، اچھا لباس، اچھا گھر  پا لیا،  جو مال و اولاد سے نوازا گیا ، اور جسے معاشرے میں نام و نمود اور رسُوخ و اثر حاصل ہو گیا، اس نے  بس فلاح پائی۔ اور جو اس سے محروم  رہ گیا  وہ ناکام و نامراد  رہا۔ اس بنیادی غلط فہمی سے وہ پھر ایک اور اس سے بھی زیادہ بڑی غلط فہمی میں مبتلا ہوگئے، اور وہ یہ تھی کہ جسے اس معنی میں فلاح نصیب ہے وہ ضرور راہِ راست  پر ہے ، بلکہ خدا کا محبوب ہے، ورنہ کیسے ممکن تھا کہ اسے یہ کامیابیاں حاصل ہوتیں۔ اور اس کے برعکس جو اس فلاح سے ہم کو علانیہ  محروم نظر آرہا ہے  وہ یقیناً عقیدے اور عمل میں گمراہ اور خدا (یا خداؤں) کے غضب میں گرفتا ر ہے۔ اس غلط فہمی کو،جو در حقیقت مادّہ پرستانہ نقطۂ نظر رکھنے والوں کی ضلالت کے اہم ترین اسباب میں سے ہے ، قرآن میں جگہ جگہ بیان کیا گیا ہے ، مختلف طریقوں سے اس کی تردید کی گئی ہے ، اور طرح طرح سے یہ بتایا گیا ہے کہ اصل حقیقت کیا ہے (مچال کے طور پر ملاحظہ ہو البقرہ، آیت ۱۲۶، ۲۱۲۔ الاعراف ۳۲۔  التوبہ ۵۵ – ۶۹ – ۸۵۔ یونس ۱۷۔ ہُود ۳ – ۲۷ تا ۳۱ – ۳۹ ۔ الرعد ۲۶۔ الکہف ۲۸ – ۳۲ تا ۴۳۔ ۱۰۳ تا ۱۰۵۔ مریم ۷۷ تا ۸۰۔ طٰہٰ، ۱۳۱ تا ۱۳۲۔ الانبیاء ۴۴، مع حواشی)۔
اس سلسلے میں چند اہم حقیقتیں ایسی ہیں کہ جب تک آدمی ان کو اچھی طرح نہ سمجھ لے، اس کا ذہن کبھی صاف نہیں ہو سکتا۔
اوّل یہ  کہ ”انسان کی فلاح“ اِس سے وسیع تر اور بلند تر چیز ہے کہ اسے کسی فرد یا گروہ یا قوم کی محص مادّی خوشحالی اور وقتی کامیابی کے معنی میں لے لیا جائے۔
دوم یہ کہ فلاح کو اس محدود معنی میں لینے کے بعد اگر اسی کو حق و باطل اور خیر و شر کا معیار قرار دے لیا جائے تو یہ ایک ایسی بنیادی گمراہی بن جاتی ہے جس سے نکلے بغیر ایک انسان کبھی عقیدہ و فکر اور اخلاق و سیرت میں راہِ راست پا ہی نہیں سکتا۔
سوم یہ کہ دنیا فی الاصل  دارالجزاء نہیں بلکہ دارالامتحان ہے۔ یہاں اخلاقی جزا و سزا اگر ہے بھی تو بہت محدود پیمانے پر اور ناقص صورت میں ہے، اور امتحان کا پہلو خود اس میں بھی موجود ہے۔ اس حقیقت کو نظر انداز کر کے یہ سمجھ لینا کہ یہاں جس کو جو نعمت بھی مِل رہی ہے وہ ”انعام“ ہے اور اس کا ملنا انعام پانے والے کے برحق اور صالح اور محبوب ِ ربّ ہونے کا ثبوت ہے ، اور جس پر جو آفت بھی آرہی ہے وہ ”سزا“ ہے اور اس بات کی دلیل ہے کہ سزا پانے والا باطل پر ہے ، غیر صالح ہے ، اور مغضوبِ بارگاہِ  خداوندی ہے ، یہ سب کچھ درحقیقت ایک بہت بڑی غلط فہمی بلکہ حماقت ہے جس سے بڑھ کر شاید ہی کوئی دوسری چیز ہمارے تصورِ حق اور معیارِ اخلاق کو بگاڑ دینے والی ہو۔ ایک طالبِ حقیقت کو اوّ ل قدم پر یہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ دنیا دراصل ایک امتحان گاہ ہے اور یہاں بے شمار مختلف صورتوں  سے افراد کا ، قوموں کا اور تمام انسانوں کا امتحان ہو رہا ہے۔ اس امتحان کے دوران میں جو مختلف حالات لوگوں کو پیش آتے ہیں وہ جزا و سزا کے آخری فیصلے نہیں ہیں کہ انہی کو نظریات ، اخلاق اور اعمال کی صحت اور غلطی کا معیار بنا لیا جائے، اور انہی کو خدا کے ہاں محبوب یا مغضوب ہو نے کی علامات قرار دے لیا جائے۔
چہارم یہ  کہ فلاح کا دامن یقینًا حق اور نیکی کے ساتھ بندھا ہوا ہے ، اور بلاشک و ریب یہ ایک حقیقت ہے  کہ باطل اور بدی کا انجام خسارن ہے۔ لیکن اس دنیا میں چونکہ باطل اور بدی کے ساتھ عارضی و نمائشی  فلاح، اور اسی طرح حق اور نیکی کے ساتھ ظاہری اور وقتی خسران ممکن ہے، اور اکثر و بیشتر یہ چیز دھوکہ دینے والی ثابت ہوتی ہے ، اس لیے حق و باطل اور خیر و شر کی جانچ کے لیے ایک مستقل کسوٹی کی ضرورت ہے جس میں دھوکے کا خطرہ نہ ہو۔ انبیاء علیہم السّلام کی تعلیمات اور آسمانی کتابیں ہم کو وہ کسوٹی بہم پہنچاتی ہیں ، انسانی عقلِ عام() اس کی صحت کی تصدیق کرتی ہے اور معروف و منکر کے متعلق نوعِ انسانی کے مشترک و جدانی تصوّرات اُس پر گواہی دیتے ہیں۔
پنجم یہ کہ جب کوئی شخص یا قوم ایک طرف تو حق سے منحرف اور فسق و فجور اور ظلم و طغبان میں مبتلا ہو ، اور دوسری طرف اس پر نعمتوں کی بارش ہو رہی ہو ، تو غفل اور قرآن دونوں کی رُو سے یہ اس بات کی کھلی علامت ہے کہ خدا نے اس کو شدید تر آزمائش میں ڈال دیا ہے اور اس پر خدا کی رحمت نہیں بلکہ اس کا غضب مسلط ہو گیا ہے۔ اسے غلطی پر چوٹ لگتی تو اس کے معنی یہ ہوتے کہ خدا ابھی اس پر مہربان ہے ، اسے تنبیہ کر رہا ہے اور سنبھلنے کا موقع دے رہا ہے ۔ لیکن غلطی پر ”انعام“ یہ معنی رکھتا ہے کہ اسے سخت سزا دینے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے اور اس کی کشتی اس لیے تیر رہی ہے کہ خوب بھر کر ڈوبے۔ اس کے بر عکس جہاں ایک طرف سچی خدا پرستی ہو، اخلاق کی پاکیزگی ہو، معاملات میں راستبازی ہو، خلقِ خدا کے ساتھ حسنِ سلوک اور رحمت  و شفقت ہو، اور دوسری طرف مصائب اور شدائد اس پر موسال دھار برس رہے ہوں اور چوٹوں  پر چوٹیں اسے لگ رہی ہوں ، تو یہ خدا کے غضب کی نہیں  اس کی رحمت ہی کی علامت ہے۔ سُنا ر اس سونے کو تپا رہا ہے تا کہ خوب نِکھر جائے اور  دنیا  پر اس کا کامل  العیار ہونا  ثابت ہو جائے۔ دینا کے بازار میں اس کی قیمت نہ بھی اُٹھے تو پروا نہیں۔ سنار خود اس کی قیمت دے گا، بلکہ اپنے فضل سے مزید عطا   کرے گا۔ اس کے مصائب اگر غضب کا پہلو  رکھتے  ہیں تو خود اس کے لیے نہیں بلکہ اس کے دشمنوں ہی کے لیے رکھتے ہیں، یا پھر اس سوسائیٹی کے لیے جس میں صالحین ستائے جائیں اور فساق  نواز ے جائیں۔