اس رکوع کو چھاپیں

سورة الموٴمنون حاشیہ نمبر۵

”زکوٰۃدینے“ اور  ”زکوٰۃ کے طریقے پر عامل ہونے“ میں معنی کے اعتبار سے بڑا فرق ہے جسے نظر انداز کر کے دونوں کو ہم معنی سمجھ لینا صحیح نہیں ہے ۔ آخر کوئی بات تو ہے جس کی وجہ سے یہاں مومنین کی صفات بیان کرتے ہوئے یُؤْتُوْنَ الزَّکوٰۃَ کا معروف انداز چھوڑ کر لِلزَّکٰوۃِ فَاعِلُوْنَ کا غیر معمولی طرزِ بیان اختیار  کیا گیا ہے۔ عربی زبان میں زکوٰۃ کا مفہوم دو معنوں سے مرکب ہے۔ ایک ”پاکیزگی“۔ دوسرے”نشونما“۔ کسی چیز کی ترقی میں جو چیزیں مانع ہوں اُن کو دُور کرنا ، اور اس کے اصل جوہر کو پروان چڑھانا ، یہ دو تصوّرات مِل کر زکوٰۃ کا پورا تصوّر بناتے ہیں۔ پھر یہ لفظ جب اسلامی اصطلاح بنتا ہے تو اس کا اطلاق دو معنوں  پر ہوتا ہے۔ ایک وہ مال جو مقصدِ تزکیہ  کے لیے نکالا جائے۔ دوسرے بجائے خود تزکیہ  کا فعل۔ اگر یُؤْ تُوْنَ الزَّکوٰ ۃَ کہیں تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ تزکیہ کی غرض سے اپنے مال کا ایک حصّہ دیتے یا ادا کرتے ہیں۔ اس طرح بات  صرف مال دینے تک محدود ہو جاتی ہے۔ لیکن اگر لِلزَّکٰوۃَ فَاعِلُوْنَ کہا جائے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ تزکیہ کا فعل کرتے ہیں، اور اس صورت میں بات صرف مالی زکوٰۃ  ادا کرنے تک محدود نہ رہے گی بلکہ تزکیۂ نفس ، تزکیۂ اخلاق، تزکیۂ زندگی، تزکیۂ مال، غرض ہر پہلو کے تزکیے تک وسیع ہو جائے گی۔ اور مزید براں ، اس کا مطلب صرف اپنی ہی زندگی کے تزکیے تک محدود نہ رہے گا بلکہ اپنے گردوپیش کی زندگی کے تزکیے تک بھی پھیل جائے گا۔ لہٰذا دوسرے الفاظ میں اس آیت کا ترجمہ یوں ہو گا کہ”وہ تزکیے کا کام کرنے والے لوگ ہیں،“یعنی اپنے آپ کو بھی پاک کرتے ہیں اور دوسروں کو پاک کرنے کی خدمت بھی انجام دیتے ہیں، اپنے اندر بھی جوہرِ انسانیت کو نشونما دیتے ہیں اور باہر کی زندگی میں بھی اس کی ترقی کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ یہ مضمون قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر بھی بیان فرمایا گیا ہے۔ مثلاً سورۂ اعلیٰ میں فرمایا   قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰیo وَذَکَرَاسْمِ ربِّہٖ فَصَلّٰی o ” فلاح پائی اُس شخص نے جس نے پاکیزگی اختیار کی اور پانے ربّ کا نام یاد کر کے نماز پڑھی“۔ اور سورۂ شمس میں فرمایا    قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا o وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَا o ”بامراد ہوا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا، اور نامراد ہوا وہ جس نے اس کو دبا دیا“۔ مگر یہ آیت ان دونوں کی بہ نسبت وسیع تر مفہوم کی حامل ہے، کیونکہ وہ صرف اپنے نفس کے تزکیے پر زور دیتی ہیں، اور یہ بجائے خود فعل تز کیہ کی اہمیت بیان کرتی ہے جو اپنی ذات اور معاشرے کی زندگی ، دونوں ہی کے تزکیے پر حاوی ہے۔