اس رکوع کو چھاپیں

سورة الموٴمنون حاشیہ نمبر۲۷

یہ بھی مخالفین حق کا قدیم ترین حربہ ہے کہ جو شخص بھی اصلاح کے لیے کوشش کرنے اُٹھے اُس پر فورًا یہ الزام چسپاں کر دیتے ہیں کہ کچھ نہیں بس اقتدار کا بھوکا ہے۔ یہی الزام فرعون نے حضرت موسیٰ ؑ اور ہارون ؑ پر لگایا تھا کہ تم اس لیے اُٹھے ہو کہ تمہیں ملک میں بڑائی حاصل ہو جائے،    تکون لکما الکبر یا ء فی الارض (یونس آیت ۷۸)۔ یہی حضرت عیسیٰؑ پر لگایا  گیا کہ یہ شخص یہودیوں کا بادشاہ بننا چاہتا ہے۔ اور اسی کا شبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق سردارانِ قریش کو تھا، چنانچہ کئی مرتبہ انہوں نے آپؐ سے یہ سودا کرنے کی کوشش کی کہ اگر اقتدار کے طالب ہو تو ”اپوزیشن“ چھوڑ کر ”حزبِ اقتدار“ میں شامل ہو جاؤ، تمہیں ہم بادشاہ بنائے لیتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ جو لوگ ساری عمر دنیا اور اس کے مادّی فائدوں اور اس کی شان و شوکت ہی کے لیے اپنی جان کھپاتے رہتے ہیں اُن کے لیے یہ تصوّر کرنا بہت مشکل  بلکہ نا ممکن ہوتا ہے کہ اسی دنیا میں کوئی انسان نیک نیتی اور بے غرضی کے ساتھ فلاحِ انسانیت کی خاطر بھی اپنیجان کھپا سکتا ہے۔  وہ خود چونکہ اپنا اثر و اقتدار جمانے کے لیے دلفریب نعرے اورا صلاح کے جھوٹے دعوے شب و روز استعمال کرتے رہتے ہیں، اس لیے یہ مکاری و فریب کاری ان کی نگاہ  میں بالکل ایک فطری چیز ہوتی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ اصلاح کا نام مکر و فریب  کے سوا کسی صداقت اور خلوص کے ساتھ کبھی لیا ہی نہیں جا سکتا، یہ نام جو بھی لیتا ہے ضرور وہ ان کا اپنا ہم جنس ہی ہو گا۔ اور لطف یہ ہے کہ مصلحین کے خلاف”اقتدار کی بھوک“ کا یہ الزام ہمیشہ برسر اقتدار لوگ اور ان کے خوشامدی حاشیہ نشین ہی استعمال کرتے رہے ہیں۔ گویا خود انہیں اور ان کے آقایانِ نامدار کو جو اقتدار حاصل ہے وہ تو ان کا پیدائشی حق ہے، ا س کے حاصل کرنے اور اس پر قابض  رہنے میں وہ کسی الزام کے مستحق نہیں ہیں، البتہ نہایت قابلِ ملامت ہے وہ جس کے لیے یہ ”غذا“ پیدائشی حق نہ تھی اور اب  یہ لوگ اس کے اندر اس چیز کی”بھوک“ محسوس کر رہے ہیں۔(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو حاشیہ نمبر ۳۶)۔
اس جگہ یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ جو شخص بھی رائج الوقت نظامِ زندگی کی خرابیوں کو دُور کرنے کے لیے اُٹھے گا اوار اس کے مقابلے میں اصلاحی نظر یہ و نظام پیش کرے گا ، اس کے لیے بہر حال  یہ بات نا گزیر ہو گی کہ اصلا ح کی راہ میں جو طاقتیں بھِ سدِّ راہ ہوں انہیں ہٹانے کی کوشش کرے اور اُن طاقتوں کو برسرِ اقتدار لائے جو اصلاحی نظریہ و نظام کو عملًا نافذ کر سکیں۔ نیز ایسے شخص کی دعوت جب بھی کامیاب ہوگی ، ا س کا قدرتی نتیجہ یہی ہو گا کہ وہ لوگوں کا مقتدا  و پیشوا بن جائے گا اور نئے نظام میں اقتدار کی باگیں یا تو اس کے اپنے ہی ہاتھوں میں ہوں گی، یا اس کے حامیوں اور پیرووں کے ہاتھ ان پر قابض ہو ں گے۔ آخر انبیاء  اور مصلحینِ عالم میں سے کون ہے جس کی کوششوں کا مقصد اپنی دعوت کو عملًا نافذ کرنا نہ تھا ، ا ور کون ہے جس کی دعوت کی کامیابی نے فی الواقع اس کو پیشوا  نہیں بنا دیا؟ پھر کیا یہ امر واقعی کسی پر یہ الزام چسپاں کردینے کے لییے کافی ہے کہ وہ دراصل اقتدار کا بھوکا تھا، اور اس کی اصل غرض وہی پیشوائی تھی جو اس نے حاصل کر لی؟ ظاہر ہے کہ بدطینت دشمنانِ حق کے سوا اس سوال کا جواب کوئی بھی اثبات میں نہ دے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ اقتدار کے بجائے خود مطلوب ہونے اور  کسی مقصد خیر کے لیے مطلوب ہونے میں زمین و آسمان کا فرق ہے، اتنا ہی بڑا فرق  جتنا ڈاکو کے خنجر اور ڈاکٹر کے نشتر میں ہے۔ اگر کوئی شخص صرف اس بنا پر ڈاکو اور ڈاکٹر کو ایک کردے کہ  دونوں با لارادہ جسم چیرتے ہیں اور نتیجہ میں مال دونوں کے ہاتھ آتا ہے ، تو یہ صرف اس کے اپنے ہی دماغ یا دل کا قصور ہے۔ ورنہ دونوں کی نیت، دونوں کے طریق کا ر اور دونوں کے مجموعی کردار میں اتنا فرق ہوتا ہے کہ کوئی صاحبِ عقل آدمی ڈاکو  کو ڈاکو اور ڈاکٹر  کو ڈاکٹر سمجھنے میں غلطی نہیں کر سکتا۔