اس رکوع کو چھاپیں

سورة الحج حاشیہ نمبر۷٦

“مدافعت دفع کر سے ہے جس کے اصل معنی کسی چیز کو ہٹانے اور دُور کرنے کے ہیں۔ مگر جب دفع کرنے کے بجائے مدافعت کرنا بولیں گے تو اس میں  دو مفہوم اور شامل ہو جائیں گے۔ ایک یہ کہ کوئی دشمن طاقت  ہے جو حملہ آور ہو رہی ہے اور مدافعت کرنے والا اس کا مقابلہ کر رہا  ہے ۔ دوسرے یہ کہ یہ مقابلہ بس ایک دفعہ ہی ہو کر نہیں رہ گیا بلکہ جب بھی وہ حملہ کرتا ہے یہ اس کو دفع کرتا ہے۔ ان دو مفہومات کو نگا ہ میں رکھ کر دیکھا جائے تو اہلِ ایمان کی طرف سے اللہ تعالیٰ  کی مدافعت کرنے کا مطلب یہ سمجھ میں آتا ہے کہ کفر اور ایمان کی کشمکش میں اہلِ ایمان یکہ و تنہا نہیں ہوتے بلکہ اللہ خود ان کے ساتھ ایک فریق ہوتا ہے۔ وہ ان کی تائید اور حمایت فرماتا ہے، ان کے خلاف دشمنوں کی چالوں کا توڑ کرتا ہے اور موذیوں کے  ضرر کو اُن سے دفع کرتا رہتا ہے ۔ پس یہ آیت حقیقت میں اہلِ حق کے لیے ای بہت بڑے بشارت ہے جس سے بڑھ کر ان کا دل مضبوط کرنے والی کوئی دوسری چیز نہیں ہو سکتی۔