اس رکوع کو چھاپیں

سورة الحج حاشیہ نمبر۷۵

یہاں سے تقریر کا رُخ ایک دوسرے مضمون کی طرف پھرتا ہے ۔ سلسلۂ کلام کو سمجھنے کے لیے یہ بات ذہن میں تازہ کر لیجیے کہ یہ تقریر اس وقت کی  ہے جب ہجرت کے بعد پہلی مرتبہ حج کا موسم آیا تھا۔ اس وقت ایک طرف تو مہاجرین اور انصار مدینہ، دونوں کو یہ بات سخت شاق گزر رہی تھی کہ وہ حج کی نعمت سے محروم کر دیے گئے ہیں اور ان پر زیارتِ حرم کا راستہ زبردستی بند کر دیا گیا ہے۔ اور دوسری طرف مسلمانوں کے دلوں پر نہ صرف اُس ظلم کے داغ تازہ تھے  جو مکّے میں ان پر کے گئے تھے بلکہ اس بات پر بھی وہ سخت رنجیدہ تھے کہ گھر بار چھوڑ کر جب وہ مکّے سے نِکل گئے تو اب مدینے میں بھی ان کو چین سے نہیں بیٹھنے دیا جا رہا ہے۔ اس موقع پر جو تقریر فرمائی گئی  اس کے پہلے حصّے میں کعبے کی تعمیر، اور حج کے ادارے اور قربانی کے طریقے پر مفصل گفتگو کر کے بتایا گیا کہ ان سب چیزوں کا اصل مقصد کیا تھا اور جاہلیت نے ان کو بگاڑ  کر کیا سے کیا کردیا ہے۔ اس طرح مسلمانوں میں یہ جذبہ پدیا کر دیا گیا کہ انتقام کی نیت سے نہیں بلکہ اصلاح کی نیت سے اِس صورت ِ حال  کو بدلنے کے لیے اُٹھیں ۔ نیز اس کے ساتھ میدنے میں قربانی کا طریقہ جاری کر کے مسلمانوں کو یہ موقع بھی فراہم کر دیا گیا   کہ حج کے زمانے میں اپنے اپنے گھروں پر ہی قربانی کر کے اس سعادت میں حصّہ لے سکیں جس سے دشمنوں نے ان کو محروم کرنے کی کوشش کی ہے، اور حج سے الگ ایک مستقل سنت کی حیثیت سے قربانی جاری کر دی تا کہ جو حج کا موقع نہ پائے وہ بھی اللہ کی نعمت کے شکر اور اس کی تکبیر کا حق ادا  کر سکے۔ اس کے بعد اب دوسرے حصّے میں مسلمانوں کو اس ظلم کے خلا ف تلوار اُٹھانے کی اجازت دی جا رہی ہے جو ان پر کیا گیا تھا اور کیا جا رہا تھا۔