اس رکوع کو چھاپیں

سورة الحج حاشیہ نمبر٦٦

اس سے پہلے ہم اس امر کی تصریح کی چکے ہیں کہ اللہ نے کبھی حرام و ناپاک مال کو اپنا رزق نہیں فرمایا ہے۔ اس لیے آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو پاک رزق ہم نے انہیں بخچا ہے اور جو حلال کمائیاں ان کو عطا کی ہیں ان میں سے وہ خرچ کرتے ہیں۔ پھر خرچ سے مراد بھی ہر طرح کا خرچ نہیں ہے بلکہ اپنی اور اپنے اہل و عیال کی جائز ضروریات پوری کرنا، رشتہ داروں اور ہمسایوں اور حاجت مند لوگوں کی مدد کرنا، رفاہِ عام کے کاموں میں حصّہ لینا، اور اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لیے مالی ایثار کرنا مراد ہے۔ بے جا خرچ، اور عیش و عشرت کے خرچ، اور ریاکارانہ خرچ وہ چیز نہیں ہے جسے قرآن”انفاق“ قرار دیتا ہو، بلکہ یہ اس کی اصطلاح میں اسراف اور تبذیر ہے۔ اسی طرح کنجوسی اور تنگ دلی کے ساتھ جو خرچ کیا جائے، کہ آدمی اپنے اہل و عیال کو بھی تنگ رکھے، اور خود بھی اپنی حیثیت کے مطابق اپنی ضرورتیں پوری نہ کرے، اور خلق خدا کی مدد بھی اپنی استطاعت کے مطابق کرنے سے جی چُرائے ، تو اس صورت میں اگرچہ آدمی خرچ تو کچھ نہ کچھ کرتا ہے ہے ، مگر قرآن کی زبان میں اس خرچ کا نام ”اِنفاق“ نہیں ہے۔ وہ اس کو ”بخل“ اور” شُحِّ نفس“ کہتا ہے۔