اس سے مراد صرف دینی فائدے ہی نہیں ہیں بلکہ دنیوی فائدہ بھی ہیں۔ یہ اسی خانہ ٔ کعبہ اور اس کے حج کی برکت تھی کہ حضرت ابراہیم ؑ کے زمانہ سے لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے تک ڈھائی ہزار برس کی مدت میں عربوں کو ایک مرکزِ وحدت حاصل رہا جس نے اُن کی عربیت کو قبائلیت میں بالکل گم ہوجانے سے بچائے رکھا۔ اس کے مرکز سے وابستہ ہونے اور حج کے لیے ہر سال ملک کے تمام حصوں سے آتے رہنے کی بدولت ان کی زبان ایک رہی، ان کی تہذیب ایک رہی، ان کے اندر عرب ہونے کا احساس باقی رہا، اور ان کو خیالات ، معلومات اور تمدنی طریقوں کی اشاعت کے مواقع ملتے رہے۔ پھر یہ بھی اسی حج کی برکت تھی کہ عرب کی اس عام بد امنی میں کم از کم چار مہینے ایسے امن کے میسر آجاتے تھے جن میں ملک کے ہر حصّے کا آدمی سفر کر سکتا تھا اور تجارتی قافلے بھی بخیریت گزر سکتے تھے۔ اس لیے عرب کی معاشی زندگی کے لیے بھی حج ایک رحمت تھا۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، آلِ عمران، حواشی ۸۰ – ۸۱۔ المائدہ ، حاشیہ ۱۱۳)۔ |