اس رکوع کو چھاپیں

سورة الحج حاشیہ نمبر۴۴

اس سے ہر وہ فعل مراد ہے جو راستی سے ہٹا ہوا ہو اور ظلم کی تعریف میں آتا ہو، نہ کہ کوئی خاص فعل۔ اس طرح کے افعال اگرچہ ہر حال میں گناہ ہیں، مگر حرم میں ان کا ارتکاب زیادہ شدید گناہ ہے۔ مفسرین نے بلا ضرورت قسم کھا نے تک کو الحاد فی الحرم  میں شمار کیا ہے اور اس آیت کا مصداق ٹھیرایا ہے۔ ان عام گناہوں کے علاوہ حرم کی حرمت کے متعلق جو خاص احکام ہیں ان کی خلاف ورزی بدرجۂ اولیٰ اس تعریف میں آتی ہے۔ مثلاً:
حرم کے باہر جس شخص نے کسی کو قتل کیا ہو، یا کوئی اور ایسا جرم کیا ہو جس پر حد لازم آتی ہو، اور پھر وہ حرم میں پناہ لے لے، تو جب تک وہ وہاں رہے اس پر ہاتھ نہ ڈالا جا ئے گا۔ حرم کی حیثیت حضرت ابراہیم ؑ کے زمانے سے چلی آتی ہے ، اور فتح مکّہ کے روز صرف ایک ساعت کے لیے اُٹھائی گئی ، پھر ہمیشہ کے لیے قائم ہو گئی۔ قرآن کا ارشاد ہے  وَمَنْ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًا، ”جو اس میں داخل ہو گیا وہ امن میں آگیا“۔ حضرت عمر ، عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کے یہ اقوال معتبر روایات میں آئے ہیں کہ اگر ہم اپنے باپ کے قاتل کو بھی وہاں پائیں تو اسے ہاتھ نہ لگائیں۔ اسی لیے جمہور تابعین اور حنفیہ اور حنابلہ اور اہلِ حدیث اس کے قائل ہیں کہ حرم کے باہر کیے ہوئے جرم کا قصاص حرم میں نہیں لیا جا سکتا۔
وہاں جنگ اور خونریز ی حرام ہے ۔ فتح مکّہ کے دوسرے روز جو خطبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا اس میں آپؐ نے اعلان فرما دیا تھا کہ”لوگو، اللہ نے مکّے کو ابتدائے آفرینش سے حرام کیا ہے اور یہ قیامت تک کے لیے اللہ کی حرمت سے حرام ہے۔  کسی شخص کے لیے ، جو اللہ اور یومِ آخر پر ایمان رکھتا ہو، حلال نہیں ہے کہ یہاں کوئی خون بہائے“۔ پھر آپؐ نے فرمایا کہ  ”اگر میری اِس جنگ کو دلیل بنا کر کوئی شخص اپنے لیے یہاں خونریزی کو جائز ٹھیرائے تو اس سے کہو کہ اللہ نے اپنے رسولؐ کے لیے اس کو جائز کیا تھا نہ کہ تمہارے لیے ۔ اورمیرے لیے بھی یہ صرف ایک دن کی ایک ساعت کے لیے حلال کیا گیا تھا، پھر آج اُس کی حرمت اُسی طرح قائم ہو گئی جیسی کل تھی“۔
وہاں کے قدرتی درختوں کو نہیں کاٹا جا سکتا، نہ خودرُو گھاس اُکھاڑی جا سکتی ہے، نہ پرندوں اوردوسرے  جانوروں کا شکار کیا جا سکتا ہے، اور نہ شکار کی غرض سے وہاں کےجانوروں کو بھگایا جا سکتا ہے تاکہ حرم کے باہر اس کا شکار کیا جائے۔ اِس سے صرف سانپ بچھو اور دوسرے مو ذی جانور مستثنٰی ہیں۔ اور خودرُو گھاس سے اِذْخِر اور خشک گھاس مستثنٰی کی گئی ہے۔ اِن امور کے متعلق صحیح احادیث میں صاف صاف احکام وارد ہوئے ہیں۔
وہاں کی گری پڑی چیز اُٹھا نا ممنوع ہے ،جیسا کہ ابوداؤد میں آیا ہے   ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم نھٰی عن لقطۃ الحاج،  یعنی”آپؐ نے حاجیوں کی گِری پڑی چیز اُٹھانے سے منع فرما دیا تھا“۔
وہاں جو شخص بھی حج یا عُمرے کی نیت سے آئے وہ اِحرام کے بغیر داخل نہیں ہو سکتا ۔ البتہ اس میں اختلاف ہے کہ دوسری کسی غرض سےداخل ہونے والے کے لیے بھی احرام باندھ کر جانا ضروری ہے یا نہیں۔ ابن عباس کا مذہب یہ ہے کہ کسی حال میں بِلا احرام داخل نہیں ہو سکتے۔ امام احمد اور امام شافعی کا بھی ایک ایک قول اسی کو مؤید ہے۔ دوسرا مذہب یہ ہے کہ صرف وہ لوگ اِحرام کی قید سے مستثنٰی ہیں جن کو بار بار  اپنے کام کے لیے وہاں جانا آنا پڑتا ہو۔ باقی سب کو احرام بند  جانا چاہیے۔ یہ امام احمد اور شافعی کا دوسرا قول ہے۔ تیسرا مذہب یہ ہے کہ جو شخص میقاتوں کے حدود میں رہتا ہو وہ مکّہ میں بِلا احرام داخل ہو سکتا ہے ، مگر جو حدودِ میقات سے باہر کا رہنے والا ہو وہ بِلا اِحرام نہیں جا سکتا۔ یہ امام ابو حنیفہ ؒ   کا قول ہے۔