اس رکوع کو چھاپیں

سورة الحج حاشیہ نمبر۴۳

یعنی جو کسی شخص یا خاندان یا قبیلے کی جائداد نہیں ہے، بلکہ وقفِ عام ہے اور جس کی زیارت سے روکنے کا کسی کا حق نہیں ہے۔
یہاں فقہی نقطۂ نظر سے دو سوال پیدا ہوتے ہیں جن کے بارے میں فقہائے اسلام کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے ہیں:
اوّل یہ کہ ”مسجد حرام“ سے مراد کیا ہے ؟ آیا صرف مسجد یا پورا حرم مکّہ؟
دوم یہ ہے کہ اس میں عاکف (رہنے والے) اور باد (بارہ سے آنے والے) کے حقوق برابر ہونے کا کیا مطلب ہے؟
ایک گروہ کہتا ہے کہ اس سے مراد صرف مسجد ہے نہ کہ پورا حرم،  جیسا کہ قرآن کے ظاہر الفاظ سے مترشح ہوتا ہے۔ اور اس میں حقوق کے مساوی ہونے سے مراد عبادت کے حق میں مساوات ہے، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس ارشاد سے معلوم ہوتا ہے کہ   یا بنی عبد مناف من ولی منکم من امور الناس شیئا فلا یمنعن احدًا طاف بھٰذا البیت او صلّٰی اَیَّۃَ ساعۃ شاء من لیل او نھار۔” اے اولاد عبد مناف، تم میں سے جو کوئی لوگوں کے معاملات پر کسی اقتدار کا مالک ہوا سے چاہیے کہ کسی شخص کو رات اور دن کے کسی وقت میں بھی خانہ کعبہ کا طواف کرنے یا نماز پڑھنے سے منع نہ کرے۔“ اس رائے کے حامی کہتے ہیں کہ مسجدِ حرام سے پورا  حرام مراد لینا اور پھر وہاں جملہ حیثیات سے مقامی باشندوں اور باہر  سے آنے والوں کے حقوق برابر قرار دینا غلط ہے ۔ کیونکہ مکّہ کے مکانات اور زمینوں پر لوگوں کے حقوقِ ملکیت و وراثت اور حقوقِ بیع و اجارہ اسلام سے پہلے قائم تھے اور اسلام کے بعد بھی قائم رہے ، حتّٰی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں صَفوان بن اُمَیَّہ کا مکان مکہ میں جیل کی تعمیر کے لیےچار ہزار درہم میں خریدا گیا۔ لہٰذا یہ مساوات صرف عبادت ہی کے معاملہ میں ہے نہ کہ کسی اور چیز میں۔ یہ امام شافعی ؒ اور ان کے ہم خیال اصحاب کا قول ہے۔
دوسرا گروہ کہتا ہے کہ مسجد حرام سے مراد پورا حرمِ مکّہ ہے۔ اس  کی پہلی دلیل یہ ہے کہ خود اس آیت میں جس چیز پر مشرکینں مکّہ کو ملامت کی گئی ہے وہ مسلمانوں کے حج میں مانع ہونا ہے، اور ان کے اس فعل کو یہ کہہ کر رد کیا گیا ہے کہ وہاں سب کے حقوق برابر ہیں۔ اب یہ ظاہر ہے کہ حج صرف مسجد ہی میں نہیں ہوتا بلکہ صفا اور مروہ سے لے کر مِنٰی ، مُزدلفہ ، عرفات، سب  مناسک حج کے مقامات ہیں۔ پھر قرآن میں ایک جگہ نہیں  متعدد  مقامات پر مسجد حرام بول کر پورا حرم مراد لیا گیا ہے۔ مثلاً فرمایا   وَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَ اِخْرَاجُ اَھْلِہٖ مِنْہُ اَکْبَرُ عِنْدَ اللہِ، ” مسجد حرام سے روکنا اور اس کے باشندوں کو وہاں سے نکالنا اللہ کے نزدیک ماہِ حرام میں جنگ کرنے سے بڑا گناہ ہے“۔ (بقرہ۔ آیت ۲۱۷)۔ ظاہر ہے کہ یہاں مسجد سے نماز پڑھنے والوں کو نکالنا نہیں بلکہ مکّہ  سے مسلمان باشندوں کو نکالنا مراد ہے۔ دوسری جگہ فرمایا   ذٰلِکَ لِمَنْ لَّمْ یَکُنْ اَھْلَہٗ حَاضِرِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ، ”یہ رعایت اُس کے لیے ہے جس کے گھر والے مسجد حرام کے رہنے والے نہ ہوں“۔ (البقرہ ۔آیت ۱۹۶)۔ یہاں بھی مسجد حرام سے مراد پورا حرمِ مکّہ ہے نہ کہ محض مسجد۔ لہٰذا ”مسجد حرام“ میں مساوات  کو صرف مسجد میں مساوات تک محدود نہیں کیا جا سکتا ، بلکہ یہ حرمِ مکّہ میں مساوات ہے۔
پھر یہ گروہ کہتا ہے کہ یہ مساوات صرف عبادت اور تعظیم و حرمت ہی میں نہیں ہے ، بلکہ حرمِ مکّہ میں تمام حقوق کے اعتبار سے ہے ۔ یہ سرزمین خدا کی طرف سے وقفِ عام ہے لہٰذا اس پر اور اس کی عمارات پر کسی کے حقوقِ ملکیّت نہیں ہیں۔ ہر شخص ہر جگہ ٹھیر سکتا ہے، کوئی کسی کو نہیں روک سکتا اور نہ کسی بیٹھے ہوئے کو اُٹھا سکتا ہے۔ اس کے ثبوت میں یہ لوگ بکثرت احادیث اور آثار پیش کرتے ہیں ۔ مثلًا
عبد اللہ بن عمر کی روایت کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  مکۃ مناخٌ لا تُبَاع ربا عھا  و لا تؤ اجر بیوتھا، ”مکّہ مسافروں کے اُترنے کی جگہ ہے، نہ اس کی زمینیں بیچی جائیں اور نہ اس کے مکان کرائے پر چڑھائے جائیں“۔
ابراہیم نَخعی کی مُرسَل روایت کہ حضور ؐ نے فرمایا   مکۃ حرمھا اللہ لا یحل بیع رباعھا ولا اجارۃ بیوتھا، ”مکّہ کو اللہ  نے حرم قرار دیا ہے ، اس کی زمین کو بیچنا اور اس کے مکانوں کا کرایہ وصول کرنا حلال نہیں ہے“۔ (واضح رہے کہ ابراہیم نخعی کی مُرسَلات حدیث مرفوع کے حکم میں ہیں، کیونکہ اُن کا یہ قاعدہ مشہور و معروف ہے کہ جب وہ مرسَل روایت کرتے ہیں تو دراصل عبد اللہ بن مسعُود ؓ  کے واسطے سے روایت کرتے ہیں)۔ مجاہد نے بھی تقریبًا  انہی الفاظ میں ایک روایت نقل کی ہے۔
عَلْقَمہ بن نَضْلَہ کی روایت کہ ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اور ابو بکر و عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے زمانے میں مکّے کی زمینیں سوائب (افتادہ زمینیں یا شاملات) سمجھی جاتی تھیں، جس کو ضرورت ہوتی وہ رہتا تھا اور جب ضرورت نہ رہتی دوسرے کو ٹھیرا دیتا تھا“۔
عبداللہ بن عمر کی روایت کہ حضرت عمر نے حکم دے دیا تھا کہ حج کے زمانے میں مکّے کا کوئی شخص اپنا دروازہ بند نہ کرے۔ بلکہ مجاہد کی روایت تو یہ ہے کہ حضرت عمر نے اہلِ مکّہ کو اپنے مکانات کے صحن کھلے چھوڑ دینے کا حکم دے رکھا تھا اور وہ ان پر دروازے لگانے سے منعے کرتے تھے  تاکہ آنے والا جہاں چاہے ٹھیرے۔ یہی روایت عطا کی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ صرف سُہیل بن عَمْرو کو فاروق اعظم نے صحن پر دروازے لگانے کی اجازت دی تھی کیونکہ ان کو تجارتی کاروبار کے سلسلے میں اپنے اونٹ وہاں بند کرنے  ہوتے تھے۔
عبداللہ بن عمر ؓ کا قول کہ جو شخص مکّہ کے مکانات کا کرایہ وصول کرتا ہے وہ اپنا پیٹ آگ سے بھرتا ہے۔
عبداللہ بن عباس ؓ کا قول کہ اللہ نے پورے حرم مکّہ کو مسجد بنا دیا ہے جہاں سب کے حقوق برابر ہیں۔ مکّہ والوں کو باہر والوں سے کرایہ وصول کرنے کا حق نہیں ہے۔
 عمر بن عبد العزیز کا فرمان امیر مکّہ کے نام کہ مکّے کے مکانات پر کرایہ نہ لیا جائے کیونکہ یہ حرام ہے۔
ان روایات کی بنا پر بکثرت تابعین اس طرف گئے ہیں ، اور فقہا میں سے امام مالک ، امام ابو حنیفہ، سُفیان ثوری، امام احمد بن حنبل، اور اسحاق بن رَاھَوَ یْہ کی بھی یہی رائے ہیں کہ اراضی مکّہ کی بیع ، اور کم از کم موسمِ حج میں مکّے کے مکانوں کا کرایہ جائز نہیں۔ البتہ بیشتر فقہاء نے مکّہ کے مکانات پر لوگوں کی ملکیت تسلیم کی ہے اور ان کی بحیثیت عمارت، نہ کہ بحیثیت زمین بیع کو بھی جائز قرار دیا ہے۔
یہی مسلک کتاب اللہ و سنت رسول اللہ اور سنت خلفاء راشدین سے قریب تر معلوم ہوتا ہے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تمام دنیا کہ مسلمانوں پر حج اس لیے فرض نہیں کیا ہے کہ یہ اہلِ مکّہ کے لیے آمدنی کا ذریعہ بنے اور جو مسلمان احساس ِ فرض سے مجبور ہو کر وہاں جائیں انہیں وہاں کے مالکانِ زمین اور مالکانِ مکانات خوب کرائے وصول کر کر کے لُوٹیں۔ وہ ایک وقفِ عام ہے تمام اہلِ ایمان کے لیے ۔ اس کی زمین کسی کی ملکیت نہیں ہے۔ ہر زائر کو حق ہے کہ جہاں  جگہ پائے ٹھیر جائے۔