اس رکوع کو چھاپیں

سورة الحج حاشیہ نمبر١۲۷

یعنی فلاھ کی توقع اگر کی جا سکتی ہے تو یہی روش اختیار کرنے سے کی جا سکتی ہے ۔ لیکن جو شخص بھی یہ روش اختیار کرے اُسے اپنے عمل پر گھمنڈ نہ ہونا چاہیے کہ میں جب ایسا عبادت گزر اور نیکو کار ہوں تو ضرورفلاح پاؤں گا ، بلکہ اسے اللہ کے فضل کا امیدوار رہنا چاہیے اور اسی کی رحمت سے توقعات وابستہ کرنی چاہییں۔ وہ فلاح دے تب  ہی کوئی شخص فلاح پاسکتا ہے ۔ خود فلاح حاصل کر لینا کسی کے بس  کی بات نہیں ہے۔
”شاید کہ تم  کو فلاح نصیب ہو“ یہ فقرہ ارشاد فرمانے کا مطلب یہ نہیں ہے  کہ اس طرح فلاح نصیب ہونا مشکوک ہے ۔ بلکہ دراصل یہ شاہانہ اندازِ بیان ہے۔ بادشاہ اگر اپنے کسی ملازم سے یہ کہے کہ فلاں کام کرو، شاید کہ تمہیں فلاں منصب مل جائے ، تو ملازم کے گھر شادیانے بج جاتے ہیں کیونکہ یہ اشارۃً ایک وعدہ ہے اورایک مہربان آقا سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ کسی خدمت پر ایک صلے کی امید وہ خود دلائے اور پھر اپنے وفادار خادم کو مایوس کرے۔
امام شافعی، امام احمد، عبداللہ بن مبارک اور اسحاق بن راھَوَیہ کے نزدیک سورۂ حج کی یہ آیت بھی آیت ِ سجدہ ہے۔ مگر امام ابو حنیفہ ، امام مالک ، حسن بصری ، سعید بن  المسیَّب، سعید بن جُبَیر، ابراہیم نَخعی اور سُفیان ثَوری اس جگہ سجدہ ٔ تلاوت کے قائل نہیں ہیں۔ دونوں طرف کے دلائل ہم مختصرًا یہاں نقل کر دیتے ہیں۔
پہلے گروہ کا اوّلین استدلال ظاہر آیت سے ہے کہ اس میں سجدے کا حکم ہے۔ دوسری دلیل عُقْبہؓ بن عامر کی وہ روایت ہے جسے احمد، ابوداؤد، ترمذی، ابن مردُویَہ اور بیہقی نے نقل کیا ہے کہ قلت یا رسُول اللہ افضلت سورۃ الحج علیٰ سائر القراٰن بسجد تین؟ قال نعم فمن لم یسجد ھما فلا یقر أ ھما۔” میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ، کیا سورۂ حج کو سارے قرآن پر یہ فضیلت حاصل ہے کہ اس میں دو سجدے ہیں؟ آپؐ نے فرمایا ہاں ، پس جو اُن پر سجدہ نہ کرے وہ انہیں نہ پڑھے“۔ تیسری دلیل ابو داؤد اور ابن ماجہ کی وہ روایت ہے جس میں عمرؓ بن عاص کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو سورۂ حج میں دو سجدے سکھائے تھے۔ چوتھی دلیل یہ ہے کہ حضرات عمرؓ ، علیؓ، عثمانؓ، ابن عمرؓ، ابن عباسؓ، ابوالدرداؓء، ابو موسیٰؓ اشعری اور عمّارؓ بن یاسِر سے یہ بات منقول ہے کہ سورۂ حج میں دو سجدے ہیں۔
دوسرے گروہ کا استدلال یہ ہے کہ آیت میں محض سجدے کا حکم نہیں ہے بلکہ رکوع اور سجدے کا ایک ساتھ ہے اور قرآن  میں رکوع وسجود ملا کر جب بولا جاتا ہے تو اس سے مراد نماز ہی ہوتی ہے ۔ نیز رکوع و سجود کا اجتماع نماز ہی کے ساتھ مخصوص ہے۔ عُقْبہ بن عامر کی روایت  کے متعلق وہ کہتے ہیں کہ اس کی سند ضعیف ہے۔ اس کو ابن لہیعہ ابو المصعب بصری سے روایت کرتا ہے اور یہ دونوں ضعیف راوی ہیں۔ خاص کر ابو المصعب تو ہو شخص ہے جو حجاج بن یوسف کے ساتھ کعبے پر منجنیق سے پتھر برسانے والوں میں شامل تھا۔ عمر و بن عاص والی روایت کو بھی وہ پایۂ اعتبار سے ساقط قرار دیتے ہیں کیونکہ اس کو سعید العتقی عبداللہ بن مُنَین الکلابی سے روایت کرتا ہے اور دونوں مجہول ہیں، کچھ پتہ نہیں کہ کون تھے اور کس پایہ کے آدمی تھے۔ اقوالِ صحابہ کے سلسلے میں وہ کہتے ہیں کہ ابن عباس  نے سورۂ حج میں دو سجدے ہونے کا یہ مطلب صاف بتاتا ہے کہ   الاولیٰ عزمۃ و الاخرۃ تعلیم ، یعنی پہلا سجدہ لازمی ہے ، اور دوسرا سجدہ تعلیمی۔