اس رکوع کو چھاپیں

سورة الحج حاشیہ نمبر١۰۲

اصل میں لفظ”عَقِیْم“ استعمال ہوا ہے جس کا لفظی ترجمہ”بانجھ“ ہے۔ دن کو بانجھ کہنے کے دو معنی ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ ایسا منحوس دن ہو جس میں کوئی تدبیر کار گر نہ ہو، ہر کوشش اُلٹی پڑے، اور ہر اُمید مایوسی میں تبدیل ہو جائے۔ دوسرے یہ کہ وہ ایسا دن ہو جس کے بعد رات دیکھنی نصیب نہ ہو۔ دونوں صورتوں میں مراد ہے وہ دن جس میں کسی قوم کی بربادی کا فیصلہ ہو جائے۔ مثلاً جس روز قومِ نوح پر طوفان آیا، وہ ان کے لیے ”بانجھ“ دن تھا۔ اسی طرح عاد ،ثمود، قومِ لوط، اہلِ مَدیَن، اور دوسرے سب تباہ شدہ قوموں کے حق میں عذابِ الہٰی کے نزول کا دن بانجھ ہی ثابت ہُوا۔ کیونکہ اُس  ”امروز“ کا کوئی ”فردا“ پھر وہ نہ دیکھ  سکے، اور کوئی چارہ گری اُن کے لیے ممکن نہ ہوئی جس سے وہ اپنی قسمت کی بگڑی بنا سکتے۔