اس رکوع کو چھاپیں

سورة الحج حاشیہ نمبر١۰١

یعنی شیطان کی ان فتنہ پردازیوں کو اللہ نے لوگوں کی آزمائش ، اور کھرے کو کھوٹے سے جدا کرنے کا ایک ذریعہ بنا دیا ہے۔ بگڑی ہوئی ذہنیت کے لوگ اِنہی چیزوں سے غلط نتیجے اخذ کرتے ہیں اور یہ ان کے لیے گمراہی کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔ صاف ذہن کے لوگوں کو یہی باتیں نبی اور کتاب اللہ کے برحق ہونے کا یقین دلاتی ہیں اور وہ محسوس کر لیتے ہیں کہ یہ سب شیطان کی شرارتیں ہیں اور یہ چیز انہیں مطمٔن کر دیتی ہے کہ یہ دعوت یقینًا خیر اور راستی کی دعوت ہے ، ورنہ شیطان اس پر اس قدر نہ تَلْمَلاتا۔
سلسلۂ کلام کو نظر میں رکھ کر دیکھا جائے تو اِن آیات کا مطلب صاف سجھ میں آجاتا ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت اس وقت جس مرحلے میں تھی اس کودیکھ کر تمام ظاہر بیں نگاہیں یہ دھوکا کھا رہی تھیں کہ آپ اپنے مقصد میں ناکام ہوگئے ہیں۔ دیکھنے والے جو کچھ دیکھ رہے تھے وہ تو یہی تھا کہ ایک شخص ، جس کی تمنا اور آرزو یہ تھی کہ اس کی قوم اس پر ایمان لائے ، وہ تیرہ برس معاذاللہ سرمارنے کے بعد آخر کار اپنے مٹھی بھر پیرووں کو لے کر وطن سے نکل جانے پر مجبور ہو گیا ہے۔ اس صورتِ حال میں جب لوگ آپؐ کے اس بیان کو دیکھتے  تھے کہ میں اللہ کا نبی ہوں اور اس کی تائید میرے ساتھ ہے، اور قرآن کے ان اعلانات کو دیکھتے تھے کہ نبی کو جھٹلا دینے والی قوم پر عذاب آجاتا ہے ، تو انہیں آپؐ کی اور قرآن کی صداقت مشتبہ  نظر آنے لگتی تھی ، اور آپؐ کے مخالفین اس پر بڑھ بڑھ کر باتیں بناتے تھے کہ کہاں گئی وہ خدا کی تائید ، اور کیا ہوئیں وہ عذاب کی وعیدیں ، اب کیوں نہیں آجاتا وہ عذاب جس کے ہم کو ڈراوے دیے جا تے تھے۔ انہی باتوں کا جواب اس سے پہلے کی آیتوں میں دیا گیا تھا اور انہی کے جواب میں یہ آیات بھی ارشاد ہوئی ہیں۔ پہلے کی آیتوں میں جواب کا رُخ کفار کی طرف تھا اور اِن آیتوں میں اُس کارُخ ان لوگوں کی طرف ہے جو کفار کے پروپیگنڈے سے متاثر ہو رہے تھے ۔ پورے جوب کا خلاصہ یہ ہے کہ:
”کسی قوم کا اپنے پیغمبر کی تکذیب کرنا انسانی تاریخ میں کوئی نیا واقعہ نہیں ہ، پہلے بھی ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔ پھراس تکذیب کا جو انجام ہوا وہ تمہاری آنکھوں کے سامنے تباہ شدہ قوموں کے آثارِ قدیمہ کی صورت میں موجود ہے۔ سبق لینا چاہو تو اس سے لے سکتے ہو۔ رہی یہ بات کہ تکذیب کرتے ہی وہ عذاب کیوں نہ آگیا جس کی وعیدیں قرآن کی بکثرت آیتوں میں کی گئی تھیں، تو آخر یہ کب کہا گیا تھا کہ ہر تکذیب فوراً ہی عذاب لے آتی ہے۔ اور نبی نے یہ کب کہا تھا کہ عذاب لانا اس کا اپنا کام ہے۔ اس کا فیصلہ تو خدا کے ہاتھ میں ہے اور وہ جلد باز نہیں ہے ۔ پہلے بھی وہ عذاب لانے سے پہلے قوموں کو مہلت دیتا رہا ہے اور اب بھی دے رہا ہے۔ مہلت کا یہ زمانہ اگر صدیوں تک بھی دراز ہوتو یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وہ سب وعیدیں خالی خولی دھمکیاں ہی تھیں جو پیغمبر کے جھٹلانے والوں پر عذاب آنے کے متعلق کی گئی تھیں۔
پھر یہ بات بھی کوئی نئی نہیں ہے کہ پیغمبر کی آرزؤوں اور تمناؤں کے بر آنے میں رکاوٹیں واقع ہوں،، یا اس کی دعوت کے خلاف جھوٹے الزامات اور طرح طرح کے شبہات و اعتراضات کا ایک طوفان اُٹھ کھڑاہو۔ یہ سب کچھ بھی تمام پچھلے پیغمبروں کی دعوتوں کے مقابلے میں ہو چکا ہے۔ مگر آخر کار اللہ تعالیٰ اِن شیطانی فتنوں کا استیصال کر دیتا ہے۔ رکاوٹوں کے باوجود دعوتِ حق فروغ پاتی ہے، اور محکم آیات کے ذریعے شبہات کے رخنے بھر دیے جاتے ہیں۔ شیطان اور اس کے چیلے ان تدبیروں سے اللہ تعالیٰ کی آیات کو نیچا دکھانا چاہتے ہیں، مگر اللہ انہی کو انسانوں کے درمیان کھوٹے اور کھرے کی تمیز کا ذریعہ بنا دیتا ہے۔ اس ذریعہ سے کھرے آدمی دعوتتِ حق کی طرف کھِنچ آتے ہیں اور کھوٹے لوگ چھَٹ کر الگ ہو جاتے ہیں۔“
یہ ہے وہ صاف اور سیدھا مفہوم جو سیاق و سباق کی روشنی میں اِن آیات سے حاصل ہوتا ہے ۔ مگر افسوس ہے کہ ایک روایت نے ان کی تفسیر میں اتنا بڑا گھپلا ڈال دیا کہ نہ صرف ان کے معنی کچھ سے کچھ ہوگئے، بلکہ سارے دین کی بنیاد ہی  خطرے میں پڑگئی۔ ہم اس کا ذکر یہاں اس لیے کرتے ہیں کہ قرآن کے طالب ِ علم فہمِ قرآن میں روایات سے مدد لینے کے صحیح اور غلط طریقوں کا فرق اچھی طرح سمجھ سکیں اور انہیں معلوم ہو جائے کہ روایت پرستی میں ناروا غلو کیا  نتائج پیدا کرتا ہے، اور قرآن کی غلط تفسیر کرنے والی روایات پر تنقید کرنے کا صحیح طریقہ کیا ہے۔
قصّہ یہ بیان کیا جاتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں یہ تمنا پیدا ہوئی کہ کاش قرآن میں کوئی ایسی بات نازل ہو جائے جس سے اسلام کے خلاف کفارِ قریش کی نفرت دُور ہو اور وہ کچھ قریب آجائیں۔ یا کم از کم اُن کے دین کے خلاف ایسی سخت تنقید نہ ہو جو انہیں بھڑکا دینے والی ہو۔ یہ تمنا آپؐ کے دل ہی میں تھی کہ ایک روز قریش کی ایک بڑی مجلس میں بیٹھے ہوئے آپؐ پر سورۂ نجم نازل ہوئی اور آپؐ نے اسے پڑھنا شروع کیا۔ جب آپؐ   اَفَرَ اَیْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزّٰیo وَمَنَاۃَ الثَّالِثَۃَ الْاُخْریٰo پر پہنچے تو یکایک آپؐ کی زبان سے یہ الفاظ ادا ہوئے   تلک الغرانقۃ العلی، وان شفاعتھن لترجیٰ (یہ بلند مرتبہ دیویاں ہیں، ان کی شفاعت ضرور متوقع ہے)۔ اس کے بعد آگے پھر آپؐ سورۂ نجم کی آیات پڑھتے چلے گئے، یہاں تک کہ جب اختتامِ سورہ پر آپؐ نے سجدہ کیا تو مشرک اور مسلمان سب سجدہ میں گر گئے۔ کفارِ قریش نے کہا کہ اب ہمارا محمدؑ سے  کیا اختلاف باقی رہ گیا۔ ہم بھی تو یہی کہتے تھے کہ خالق و رازق اللہ ہی ہے ، البتہ ہمارے یہ معبود اس کے حضور میں ہمارے شفیع ہیں۔ شام کو جبریل آئے اور انہوں نے کہا یہ آپ  نے کیا کیا؟ یہ دونوں فقرے تو میں نہیں لایا تھا۔ اس پر آپؐ سخت مغموم ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے وہ آیت نازل کی جو سورۂ بنی اسرائیل ، رکوع ۸ میں ہے کہ  وَاِنْ کَادُوْ ا لَیَفْتِنُوْنَکَ عَنِ الَّذِیْٓ اَوْ حَیْنَآ اِلَیْکَ لِتَفْتَرِیَ عَلَیْنَا غَیْرَہٗ ۔۔۔۔۔۔ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَکَ عَلَیْنَا نَصِیْرًا۔  یہ چیز برابر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو رنج و غم میں مبتلا کیے رہی یہاں تک کہ سورۂ حج کی یہ آیت نازل ہوئی اور اس میں آنحضرتؐ کو تسلی دی گئی کہ تم سے پہلے بھی انبیاء کے ساتھ ایسا ہوتا رہا ہے ۔ اُدھر یہ واقعہ کہ قرآن سن کر آنحضرتؐ کے ساتھ قریش کے لوگوں نے بھی سجدہ کیا، مہاجرینِ حبشہ تک اس رنگ میں پہنچا کہ آنحضرتؐ اور کفارِ مکّہ کے درمیان صلح ہو گئی ہے۔ چنانچہ بہت سے مہاجرین مکّہ واپس آگئے۔ مگر یہاں پہنچ کر انہیں معلوم ہوا کہ  صُلح کی خبر غلط تھی، اسلام اور کُفر کی دشمنی جُوں کی تُوں قائم ہے۔
یہ قصہ ابن جَریر اور بہت سے مفسرین نے اپنی تفسیروں میں ، ابن سعد نے طبقات میں ، الواحدی نے اسباب النزُول میں ، موسیٰ بن عُقبہ نے مَغازِی میں، ابن اسحاق نے سیرت میں ، اور ابن ابی حاتم، ابن المُنْذِر ، بَزار، ابنِ مَرْدُوْییہ اور طَبرَانی نے اپنے احادیث کے مجموعوں میں نقل کیا ہے۔ جن سندوں سے یہ نقل ہوا ہے وہ محمد بن قیس، محمد بن کعب قُرظِی، عُروہ بن زبیر، ابو صالح، ابو العالیہ، سعید بن جُبَیر، ضَحّاک، ابوبکر بن عبد الرحمٰنبن حارث ،قَتَادہ، مجاہد، سُدِّی، ابن ِ شہاب زُہْرِی، اور ابن عباس پر ختم ہوتی ہیں (ابن عباس کے سوا ان میں سے کوئی صحابی نہیں ہے)۔ قصے کی تفصیلات میں چھوٹے چھوٹے اختلافات کو چھوڑ کر دو بہت بڑے اختلافات ہیں۔ ایک یہ کہ بتوں کی تعریف میں جو کلمات بنی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیے گئے ہیں وہ قریب قریب  ہر روایت میں دوسری روایت سے مختلف ہیں۔ ہم نے ان کا استقصاء کرنے کی کوشش کی تو ۱۵ عبارتیں الگ الگ الفاظ میں پائیں۔ دوسرا بڑا اختلاف یہ ہے کہ کسی روایت کی رُو سے یہ الفاظ دورانِ وحی میں شیطان نے آپؐ پر القا کر دیے اور آپؐ سمجھے کہ یہ جبریل لائے ہیں ۔ کسی روایت میں ہے کہ یہ الفاظ اپنی اُس خواہش کے زیرِ اثر سہوًا آپؐ کی زبان سے نِکل گئے ۔ کسی میں  ہے کہ اُس وقت آپؐ کو اُونگھ آگئی تھی اور اس حالت میں یہ الفاظ نکلے۔ کسی کا بیان ہے کہ آپؐ نے یہ قصدًا کہے مگر استفہام انکاری کے طور پر کہے۔ کسی کا قول ہے کہ شیطان نے آپؐ کی آواز میں آواز مِلا کر یہ الفاظ کہہ دیے اور سمجھا  یہ گیا کہ آپؐ نے کہے ہیں۔ اور کسی کے نزدیک کہنے والا مشرکین میں سے کوئی شخص تھا۔
اِبنِ کَثِیر، بَیْہقی، قاضی عیاض، ابن خُزَیمہ، قاضی ابوبکر ابن العربی، امام رازی، قُرطُبی، بدر الدین عینی، شوکانی، آلوسی وغیرہ حضرات اس قصے کو بالکل غلط قرار دیتے ہین۔ ابنِ کثیر کہتے ہیں کہ ”جتنی سندوں سےیہ روایت ہوا ہے، سب مُرسَل اور منقطع ہیں، مجھے کسی صحیح متصل سند سے یہ نہیں ملا۔“بیہقی کہتے ہیں کہ”ازروئے نقل یہ قصّہ ثابت  نہیں ہے۔“ ابنِ خُذیمہ سے اس کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ”یہ زنادقہ کا گھڑا ہو ا ہے۔“ قاضی عیاض کہتے  ہیں کہ”اس کی کمزوری اسی سے ظاہر ہے کہ صحاح ستہ کے مؤلفین میں سے کسی نے بھی اس کو اپنے ہاں نقل نہیں کیا اور نہ یہ کسی صحیح متصل بے عیب سند کے ساتھ ثقہ راویوں سے منقول ہوا ہے۔“ امام رازی ، قاضی ابوبکراور آلوسی نے اس پر مفصل بحث کر کے اسے بڑے پرزور طریقے سے رد کیا ہے۔ لیکن دوسری طرف حافظ ابن حَجَر جیسے بلند پایہ محدث اور ابوبکر جَصّا ص جیسے نامور فقیہ اور زَمَحشَرِی جیسے عقلیت پسند مفسِّر، اور ابن جریر جیسے امام تفسیر و تاریخ و فقہ اس کو صحیح مانتے ہیں اور اسی کو آیت ِ زیرِ بحث کی تفسیر قرار دیتے ہیں۔ ابن حجر کا محدّثانہ استدلال یہ ہےکہ:
”سعید بن جُبَیر کے طریق کے سوا باقی جن طریقوں سے یہ روایت آئی ہے وہ یا تو ضعیف ہیں یا منقطع، مگر طریقوں کی کثرت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اس کی کوئی اصل ہے ضرور ۔ علاوہ بریں یہ ایک طریقہ سے متصلًا بسندِ صحیح بھی نقل ہوا ہے جسے بزّار نے نکالا ہے (مراد ہے یوسف بن حمّاد عن اُمَیَّہ بن خالد عن شُعْبَہ عن ابی بِشْر عن سعید بن حُبَیر عن ابن عباس ) اور دو طریقوں سے یہ اگرچہ مرسل ہے مگر اس کے راوی صحیحین کی شرط کے مطابق ہیں۔ یہ دونوں روایتیں طَبرَی نے نقل کی ہیں۔ ایک بطریق یونس بن یزید عن ابن شہاب، دوسری بطریق مُعتَمِر بن سلیمان و حماد بن سَلَمہ عن داؤد بن ابی ہند عن ابی العالیہ“۔
جہاں تک موافقین کا تعلق ہے، وہ تو اسے صحیح مان ہی بیٹھے ہیں ۔ لیکن مخالفین نے بھی بالعموم اس پر تنقید کا حق ادا نہیں کیا ہے۔ ایک گروہ اسے اس لیے رد کرتا ہے کہ اس کی سند  اس کی نزدیک قوی نہیں ہے۔ اس  کے معنی یہ ہوئے کہ اگر سند قوی ہوتی تویہ حضرات اس قصّے کو مان لیتے۔ دوسرا گروہ اسے اس لیے رد کرتا ہے کہ اس سے تو سارا دین ہی مشتبہ ہوا جاتا ہے اور دین کی ہر بات کے متعلق   شک پیدا ہو جاتا ہے  کہ نہ معلوم اور کہاں کہاں شیطانی اغوا یا نفسانی آمیزشوں کا دخل ہو گیا ہو۔ حالانکہ اس نوعیت  کا استدلال ان لوگوں کو تو مطمٔن کر سکتا ہے جو ایمان لانے کے عزم پر قائم ہوں، مگر دوسرے لوگ جو پہلے ہی شکوک میں مبتلا ہیں ، یا جواَب تحقیق کر کے فیصلہ کرنا چاہتے ہیں کہ ایمان لائیں یا نہ لائیں ، ان کے دل میں تو یہ جذبہ پیدا نہیں ہو سکتا  کہ جن جن چیزوں سے یہ دین مشتبہ قرار پاتا ہوا نہیں رد کر دیں۔ وہ تو کہیں گے کہ جب کم از کم ایک نام ور صحابی اور بکثرت تابعین و تبع تابعین ، اور متعدد و معتبر راویانِ حدیث کی روایت سے ایک واقعہ ثابت ہو رہا ہے تو اسے صرف اس بنا پر کیوں رد کر دیا جائے کہ ان سے آپ کا دین مشتبہ ہُوا جاتا ہے ؟ اس کے بجائے آپ کے دین کو مشتبہ کیوں نہ سمجھا جائے جبکہ یہ واقعہ اسے مشتبہ ثابت کر ہی رہا ہے؟
اب دیکھنا چاہیے کہ تنقید کا وہ صحیح طریقہ کیا ہے جس سے اگر اس قصے کو پرکھ کر دیکھا جائے تو یہ ناقابلِ قبول قرار پاتا ہے ، چاہے اس کی سند کتنی ہی قوی ہو، یا قوی ہوتی۔
پہلی چیز خود اُس کی اندرونی شہادت ہے جو اُسے غلط ثابت کرتی ہے ۔ قصّے میں بیان کیا گیا ہے کہ یہ واقعہ اُس وقت پیش آیا جب ہجرت حبشہ ہو چکی تھی، اور اس واقعے کی خبرپا کر مہاجرین حبشہ میں سے ایک گروہ مکّہ واپس آگیا۔ اب ذرا تاریخوں کا فرق ملاحظہ کیجیے:
---- ہجرت حبشہ معتبر تاریخی روایتوں کی رو سے رجب سن ۵ نبوی میں واقع ہوئی ، اور مہاجرین ِ حبشہ کا ایک گروہ مصالحت کی غلط خبر سُن کر تین مہینے  بعد (یعنی اسی سال تقریبًا شوال کے مہینے میں) مکّے واپس آگیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ واقعہ لامحالہ سن ۵ نبوی کا ہے۔
---- سورۂ بنی اسرائیل جس کی ایک آیت کے متعلق بیان کیا جا رہاہے کہ وہ بنی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فعل پر بطورِ عتاب نازل ہوئی تھی ، معراج کے بعد اتری ہے، اور معراج کا زمانہ معتبر ترین روایات کی رُو سے سن ۱۱ یا سن۱۲ نبوی کا ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ اس فعل پر پانچ چھ سال جب گزر چکے تب اللہ تعالیٰ نے عتاب فرمایا۔
---- اور زیرِ بحث آیت ، جیسا کہ اس کا سیاق و سباق صاف بتا رہا ہے  سن ۱ ہجری میں نازل ہوئی ہے ۔ یعنی عتاب پر بھی جب مزید دو ڈھائی سال گزر لیے تب اعلان کیا گیا کہ یہ آمیزش تو القائے شیطانی سے ہو گئی تھی، اللہ نے اسے منسُوخ کر دیا ہے۔
کیا کوئی صاحبِ عقل آدمی باور کر سکتا ہے کہ آمیزش کا فعل آج ہو، عتاب چھ سال بعد، اور آمیزش کی تنسیخ کا اعلان ۹ سال بعد؟
پھر اس قصّے میں بیان کیا گیا ہے   کہ یہ آمیزش سورۂ نجم میں ہوئی تھی اور اس طرح ہوئی کہ ابتدا سے آپ اصل سورۃ کے الفاظ پڑھتے چلے آرہے تھے، یکایک مَنَاۃَ الثَّالِثَۃَ الْاُخْرٰی پر پہنچ کر آپ نے بطورِ خود یا شیطانی اغوا سے یہ فقرہ ملایا ، اور آگے پھر سورۂ نجم  کی اصل آیات پڑھتے چلے گئے۔ اس کے متعلق کہا جارہا ہے کہ کفارِ مکّہ اسے سن کر خوش ہو گئے اور  انہوں نے کہا کہ اب ہمارا اور محمدؐ کا اختلاف ختم ہو گیا۔ مگر سورۂ نجم کے سلسلۂ کلام میں اس الحاقی فقرے کے شامل کر کے تو دیکھیے:
”پھر تم نے کچھ غور کیا اِن  لات اور عُزّیٰ پر اور تیسری ایک اور (دیوی) مناۃ پر؟ یہ بلند پایہ دیویاں ہیں، ان کی شفاعت ضرور متوقع ہے۔ کیا تمہارے لیے تو ہوں بیٹے اور اس (یعنی اللہ) کے لیے ہوں بیٹیاں؟ یہ تو بڑی بے انصافی کی تقسیم ہے۔ دراصل یہ کچھ نہیں ہے مگر چند نام  جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لیے ہیں۔ اللہ نے ان کے لیے کوئی سند نازل نہیں  کی۔ لوگ محض گمان اور من مانے خیالات کی پیروی کر رہے ہیں، حالانکہ ان کے ربّ کی طرف سے صحیح رہنمائی آگئی ہے“۔
دیکھیے، اس عبارت میں خط کشیدہ فقرے نے کیسا صریح تضاد پیدا کر دیا ہے۔ ایک سانس میں کہا جاتا ہے کہ واقعی تمہاری یہ دیویاں بلند مرتبہ رکھتی ہیں، ان کی شفاعت ضرور متوقع ہے۔ دوسرے ہی سانس میں پلٹ کر اُن پر چوٹ کی جاتی ہے کہ بے وقوفو، یہ تم نے خدا کے لیے بیٹیاں کیسی تجویز کر رکھی ہیں؟ اچھی دھاندلی ہے کہ تمہیں تو ملیں بیٹے اور خدا کے حصّے میں آئیں بیٹیاں! یہ سب تمہاری من گھڑت ہے جسے خدا کی طرف سے کوئی سند اعتبار حاصل نہیں ہے۔ تھوڑی دیر کے لیے اس سوال کو جانے دیجیے کہ یہ صریح بے تکی باتیں کسی مرد عاقل کی زبان سے نِکل بھی سکتی ہیں یا نہیں۔ مان لیجیے کے شیطان نے غلبہ پا کر یہ الفاظ زبان سے نکلوا دیے۔ مگر کیا قریش کا وہ سارا مجمع جو اسے سُن رہا تھا ، بالکل ہی پاگل ہو گیا تھا کہ بعد کے فقروں میں ان تعریفی کلمات کی کھلی کھلی تردید سُن کر بھی وہ یہی سمجھتا رہا کہ ہماری دیویوں کی واقعی تعریف کی گئی ہے ؟ سورۂ نجم کے آخر تک کا پورا مضمون اس ایک تعریفی فقرے کے بالکل خلا ف ہے۔ کس طرح باور کیا جا سکتا ہے کہ قریش کے لوگ اسے آخر تک سُننے کے بعد یہ پکار اُٹھے ہونگے کہ چلو آج ہمارا اور محمد ؐ  کا اختلاف ختم ہو گیا؟
یہ تو ہے اس قصّے کی اندرونی شہادت جو اس کے سراسر لغو اور مہمل ہونے کی گواہی دے رہی ہے ۔ اس کے بعد دوسری چیز دیکھنے کی یہ ہے کہ اس میں تین آیتوں کی جو شانِ نزول بیان کی جا رہی ہے آیا قرآن کی ترتیب بھی اس کو قبول کرتی ہے؟ قصّے میں بیان یہ کیا جا رہا ہے کہ آمیزش سورۂ نجم میں کی گئی تھی ، جو سن ۵ نبوی میں نازل ہوئی ۔ اس آمیزش پر سورۂ بنی اسرائیل والی آیت میں عتاب فرمایا گیا، اور پھر اس کی تنسیخ اور واقعہ کی توجیہ سورۂ حج کی زیرِ بحث آیت میں کی گئی۔ اب لا محالہ دو صورتوں میں سے کوئی ایک ہی صورت پیش آئی ہو گی۔ یا تو عتاب اور تنسیخ والی آیتیں بھی اسی زمانے میں نازل ہوئی ہوں جبکہ آمیزش کا واقعہ پیش آیا، یا پھر عتاب والی آیت سورۂ بنی اسرائیل کے ساتھ اور تنسیخ والی آیت سورۂ حج کے ساتھ نازل ہوئی ہو۔ اگر پہلی صورت ہے تو یہ کس قدر عجیب بات ہے کہ یہ دونوں آیتیں سورہ نجم ہی میں نہ شامل کی گئیں بلکہ عتاب والی آیت کو چھ سال تک یوں ہی ڈالے رکھا گیا اور سورۂ بنی اسرائیل جب نازل ہوئی  تب کہیں اس میں لا کر چپکا دیا گیا۔ پھر تنسیخ والی آیت مزید دو ڈھائی برس تک پڑی رہی اور سورۂ حج کے نزول تک اسے کہیں نہ چسپاں کیا گیا۔ کیا قرآن کی ترتیب اسی طرح ہوئی ہے کہ ایک موقع کی نازل شدہ آیتیں الگ الگ بکھری پڑی رہتی تھیں اور برسوں کے بعد کسی کو کسی سورت میں اور کسی کو کسی دوسری سورت میں ٹانک دیا جاتا تھا؟ لیکن اگر دوسری صورت ہے کہ عتاب والی آیت واقعہ کے ۶ سال بعد اور تنسیخ والی آیت آٹھ نو سال بعد نازل ہوئی، تو علاوہ اُس بے تُکے پن کے جس کا ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں، یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ سورۂ بنی اسرائیل اور سورۂ حج میں ان کے نزول کا موقع کیا ہے۔
یہاں پہنچ کر نقدِ صحیح کا تیسرا وقاعدہ ہمارے سامنے آتا ہے ، یعنی یہ کہ کسی آیت کی جو تفسیر بیان کی جا رہی ہو اسے دیکھا جائے کہ آیا قرآن کا سیاق و سباق بھی اسے قبول کرتا ہے یا نہیں۔ سورۂ بنی اسرائیل کا آٹھواں رکوع پڑھ کر دیکھیے، اور اس سے پہلے اور بعد کے مضمون پر بھی نگاہ ڈال لیجیے۔ اس  سلسلۂ کلام میں آخر کیا موقع اس بات کا نظر آتا ہے کہ چھ سال پہلے کے ایک واقعہ پر نبی کو ڈانٹ بتائی جائے(قطع نظر اس سے کہ آیت   اِنْ کَادُوْ ا لَیَفْتِنُوْنَکَ میں نبی پر کوئی ڈانٹ ہے بھی یا نہیں ، اور آیت  کے الفاظ کفار کے فتنے میں نبی کے مبتلا ہوجانے کی تردید کر رہے یا تصدیق)۔ اسی طرح سورۂ حج آپ کے سامنے موجود ہے۔ آیت زیربحث سے پہلے کا مضمون بھی پڑھیے اور بعد کا بھی دیکھیے۔ کیا کوئی معقول وجہ آپ کی سمجھ میں آتی ہے کہ اس سیاق و سباق میں یکایک یہ مضمون کیسے آگیا کہ ”اے نبی ۹ سال پہلے قرآن میں آمیزش کر بیٹھنے کی جو حرکت تم سے ہو گئی تھی اُس پر گھبراؤ نہیں، پہلے انبیاو سے بھی شیطان یہ حرکتیں کراتا رہا ہے، اور جب کبھی انبیاء اس طرح کا فعل کر جاتے ہیں تو اللہ اس کو منسُوخی کر کے اپنی آیات کو پھر پختہ کر دیتا ہے۔“
ہم اس سے پہلے بار ہا کہہ چکے ہیں، اور یہاں پھر اس کا اعادہ کرتے ہیں کہ کوئی روایت ، خواہ اس کی سند آفتاب سے بھی زیادہ روشن ہو، ایسی صورت  میں قابلِ قبول نہیں ہو سکتی جبکہ اس کا متن اس کے غلط ہونے کی کھلی کھلی شہادت دے رہا ہو اور قرآن کے الفاظ، سیاق و سباق ، ترتیب ، ہر چیز اُسے قبول کرنے سے انکار کر رہے ہو۔ یہ دلائل تو ایک مشکک اور بے لاگ محقق کو بھی مطمئن کر دیں گے کہ یہ قصّہ غلط ہے۔ رہا مومن، تو وہ اسے ہر گز نہیں مان سکتا جبکہ وہ علانیہ یہ دیکھ رہا ہے کہ یہ روایت قرآن مجید کی ایک نہیں بیسیوں آیتوں سے ٹکراتی ہے۔ ایک مسلمان کے لیے یہ مان لینا بہت آسان ہے کہ خود اس روایت کے راویوں کو شیطان نے بہکا دیا، بہ نسبت اس کے  کہ وہ یہ مان لے کہ رسول  اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی اپنی خواہش ِ نفس سے قرآن میں ایک لفظ بھی ملا سکتے تھے، یا حضورؐ کے دل میں کبھی ایک لمحہ کے لیے بھی یہ خیال آسکتا تھا کہ توحید کے ساتھ شرک کی کچھ آمیزش  کر کے کفار کو راضی کیا جائے، یا آپ اللہ تعالیٰ کے فرامین کے بارے میں کبھی یہ آرزو  کر سکتے تھے کہ کاش اللہ میاں ایسی کوئی بات نہ فرمابیٹھیں جس سے کفار ناراض ہو جائیں، یا یہ کہ آپ پر وحی کسی ایسے غیر محفوظ اور مشتبہ طریقے سے آتی تھی کہ جبریل کے ساتھ شیطان بھی آپ پر کوئی لفظ القا کر جائے اور آپ اسی غلط فہمی میں رہیں کہ یہ بھی جبریل ہی لائے ہیں۔ ان میں سے ایک  ایک بات قرآن کی کھلی کھلی تصریحات  کےخلاف ہے اور اُن ثابت شدہ عقائد کے خلا ف ہے جو ہم قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں رکھتے ہیں۔ خدا کی پنا ہ اُس روایت پرستی سے جو محض سند کا اتصال  یا راویوں کی ثقاہت یا طُرقِ روایت  کی کثرت دیکھ کر کسی مسلمان کو خدا کی کتاب اور اس کے رسول کے بارے میں ایسی سخت باتیں بھی تسلیم کرنے پر آمادہ کردے۔
 مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اُس شک کو بھی دُور کر دیا جائے جو راویانِ حدیث کی اتنی بڑی تعداد کو اس قصّے کی روایت میں مبتلا ہوتے دیکھ کر دلوں میں پیدا ہوتا ہے۔ ایک شخص سوال کر سکتا ہے کہ اگر اس قصّے کی کوئی اصلیت نہیں ہے تو نبیؐ اور قرآن پر اتنا بڑا بہتا ن حدیث  کے اتنے راویوں کے ذریعہ سے ، جن میں بعض بڑے نامور ژقہ بزرگ ہیں، اشاعت کیسے پا گیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس  کے اسباب  کا سراغ ہم کو خود حدیث ہی کے ذخیرے میں مل جاتا ہے۔ بخار ی ، مسلم، ابوداؤد، نسائی اور مسند احمد  میں اصل واقعہ اس طرح آیا ہے کہ  نبیصلی اللہ علیہ وسلم نے سورۂ نجم کی تلاوت فرمائی، اور خاتمے پر جب آپ نے سجدہ کیا تو تمام حاضرین، مسلم اور مشرک سب، سجدے میں گر گئے۔ واقعہ بس اتنا ہی تھا۔ اور یہ کوئی تعجب کی بات نہ تھی۔ اوّل تو قرآن کا زورِ کلام اور انتہائی پُر تاثر اندازِ بیان، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے اس کا ایک ملہمانہ شان کے ساتھ ادا ہونا، اس کو سُن کر اگر پورے مجمع پر ایک وجد کی سی کیفیت  طاری ہوگئی ہو اور آپ کے ساتھ سارا مجمع سجدے میں گر گیا ہو تو کچھ بعید نہیں ہے ۔ یہی تو  وہ چیز تھی جس پر قریش کے لوگ کہا کرتے تھے کہ یہ شخص جادوگر ہے۔ البتہ معلوم ہوتاہے کہ بعد میں قریش کے لوگ اپنے اس وقتی تأثر پر کچھ پشیمان سے ہوئے ہوں گے اور ان میں سے کسی نے یا بعض لوگوں نے اپنے اس فعل کی یہ توجیہ کی ہو گی کہ صاحب، ہمارے کانوں نے تو محمدؐ کی زبان سے اپنے معبودوں کی تعریف میں کچھ کلمات سُنے تھے اس لیے ہم بھی ان کے ساتھ سجدے میں گر گئے۔ دوسری طرف یہی واقعہ مہاجرینِ حبشہ تک اس شکل میں پہنچا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور قریش کے درمیان صلح ہوگئی ہے ، کیونکہ دیکھنے والے نے آپ کو اور مشرکین و مومنین سب کو ایک ساتھ سجدہ کرتے دیکھا تھا۔ یہ افواہ ایسی گرم ہوئی کہ مہاجرین میں سے تقریبًا ۳۳ آدمی مکّے میں واپس آگئے۔ ایک صدی کے اندر یہ تینوں باتیں، یعنی قریش، اسجدہ، اس سجدے کی یہ توجیہ ، اور مہاجرین ِ حبشہ کی واپسی ، مِل جل کر ایک قصے کی شکل اختیار کر گئیں اور بعض ثقہ لوگ تک اس کی روایت میں مبتلا ہوگئے۔ انسان آخر انسان ہے۔ بڑے سے بڑے نیک اور ذی فہم آدمی سے بھی بسا اوقات لغزش ہوجاتی ہے اور اس کی لغزش عام لوگوں کی لغزش سے زیادہ نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔ عقیدت میں بے جا غلو رکھنے والے ان بزرگوں کی صحیح باتوں کے ساتھ ان کی غلط باتوں کو بھی آنکھیں بند کر کے ہضم کر جاتے ہیں۔ اور بدطینت لوگ چھانٹ چھانٹ کر ان کی غلطیاں جمع کرتے ہیں اور انہیں اس بات کے لیے دلیل بناتے ہیں کہ سب کچھ جو ان کے ذریعے سے ہمیں پہنچا ہے ، نذر ِ آتش کر دینے کے لائق ہے۔