اس رکوع کو چھاپیں

سورة الحج حاشیہ نمبر١

یہ زلزلہ قیامت کی ابتدائی کیفیات میں سے ہے اور اغلب یہ ہے کہ اس کا وقت وہ ہو گا جب کہ زمین یکایک اُلٹی پھر نی شروع ہو جائے گی اور سورج مشرق کے بجائے مغرب سے طلوع ہو گا ۔ یہی بات قدیم مفسرین میں سے عَلْقَمَہ اور شَعْبِی نے بیا ن کی ہے کہ  یکون ذلک عند طلوعِ الشمس من مغربھا۔ اور یہی بات اُس طویل حدیث سے معلوم ہوتی ہے کہ نفخِ صور کے تین واقع ہیں۔ ایک نفخِ فَزَع ، دوسرا نفخِ صَعْق اور تیسرا نفخِ قیام الربّ العالمین ۔ یعنی پہلا نفخِ عام سراسیمگی پیدا کرے گا ،  دوسرے نفخ پر سب مر کر گر جائیں  گے اور تیسرے نفخ پر سب لوگ زندہ ہو کر خدا کے حضور پیش ہو جائیں گے۔ پھر پہلے نفخ کی تفصیلی کیفیت بیان کرتے ہوئے آپ بتاتے ہیں کہ اُس وقت زمین کی حالت اُس کشتی کی سی ہو گی جو موجوں کے تھپیڑے کھا کر ڈگمگا رہی ہو، یا اُس معلق قندیل کی سی جس کو ہوا کے جھونکے بُری طرح جھنجھوڑرہے ہوں۔ اُس وقت زمین کی آبادی پر جو کچھ گزرے گی اُس کا نقشہ قرآن مجید میں مختلف مقامات پر کھینچا گیا ہے۔ مثلاً:
                فَاِذَنُفِخَ فِی الصُّوْرِ نَفْخَۃٌ وَّاحِدَ ۃً وَحُمِلَتِ الْاَرْضُ وَالْجِبَالُ فَدُکَّتَا دَکَّۃً وَّاحِدَ ۃً فَیَوْ مَئِذٍ وَّقَعَتِ الْوَاقِعَۃُ۔ (الحاقہ)
پس جب صور میں ایک پھونک مار دی جائے گی اور زمین اور پہاڑ اُٹھا کر ایک ہی چوٹ میں توڑ دیے جائیں گے تو وہ واقعہ ٔ عظیم پیش آجائے گا۔
اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَھَا، وَ اَخْرَجَتِ الْاَرْضُ اَثْقَالَھَا، وَقَالَ الْاِنْسَانُ مَا لَھَا۔ (الزلزال)
جبکہ زمین پوری کی پوری ہلا ماری جائے گی، اور وہ اپنے پیٹ کے بوجھ نکال  پھینکے گی ، اور انسان کہے گا کہ یہ اس کوکیا ہو رہا ہے۔
یَوْمَ تَرْجُفُ الرَّاجِفَۃُ تَتْبَعُھَا الرَّادِفَۃ، قُلُوْبٌ یُّوْمَئِذٍ وَّاجِفَہ، اَبْصَارُ ھَا خَاشِعَۃٌ ۔(النازعات )
جس روز ہلا مارے گا زلزلے کا ایک جھٹکا اور اس کے بعد دوسرا جھٹکا، اس دن دل کانپ رہے ہوں گے اور نگاہیں خوف زدہ ہوں گی۔
اَذَا رُجَّتِ الْاَرْضُ رَجًّا وَّ بُسَّتِ الْجِبَالُ بَسًّا فَکَانَتْ ھَبَآءً مَّنْبَثًّا ۔(الواقعہ)
جس روز زمین جھنجھوڑ ڈالی جائے گی اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر غبار کی طرح اُڑنے لگیں گے۔
فَکَیْفَ تَتَّقُوْنَ اِن ْ کَفَرْتُمْ یَوْمًا یَّجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِیْبَا نِ  السَّمَآ ءُ مُنْفَطِرٌ بِہٖ ۔(الزلزال)
اگر تم نے پیغمبر کی بات نہ مانی تو کیسے بچو گے اُس دن کی آفت سے جو بچوں کو بوڑھا کر دے گا اور جس کی شدت سے آسمان پھٹا پڑتا ہو گا۔
                اگرچہ بعض مفسرین نے اس زلزلے کا وقت وہ بتایا ہے جبکہ مُردے زندہ ہو کر اپنے ربّ کے حضور پیش ہوں گے ، اور اس کی تائید میں متعدّد احادیث بھی نقل کی ہیں، لیکن  قرآن کا صریح بیان ان روایات کو قبول کرنے میں مانع ہے ۔ قرآن اِس کا وقت وہ بتا رہا ہے جبکہ مائیں اپنے بچوں کو دودھ پلاتے پلاتے چھوڑ کر بھاگ کھڑی ہوں گی ، اور پیٹ والیوں کے پیٹ گر جائیں گے۔ اب یہ ظاہر ہے کہ آخرت کی زندگی میں نہ کوئی عورت اپنے بچے کو دودھ پلا رہی ہوگی اور نہ کسی حاملہ کے وضع حمل یا اسقاط کا کوئی موقع ہو گا، کیونکہ قرآن  کی واضح تصریحات کی رو سے وہاں سب رشتے منقطع ہو چکے ہوں گے اور ہر شخص  اپنی انفرادی حیثیت سے خدا کے سامنے حساب دینے کے لیے کھڑا ہو گا۔ لہٰذا قابل ترجیح وہی روایت ہے جو ہم نے پہلے نقل کی ہے۔ اگرچہ اس کی سند ضعیف ہے مگر قرآن سے مطابقت اس کے ضعف کود ُور کر دیتی ہے۔ اور یہ دوسری روایات گو سند اً قوی تر ہیں ، لیکن قرآن کے ظاہر بیان سے عدمِ مطابقت ان کو ضعیف کر دیتی ہے۔