”اِس آیت کا مطلب سمجھنے میں بعض لوگوں نے سخت ٹھوکر کھائی ہے اور اس سے ایک ایسا مطلب نکال لیا ہے جو پورے قرآن کی تردید اور پورے نظام ِ دین کی بیخ کنی کر دیتا ہے۔ وہ آیت کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ دنیا کی موجودہ زندگی میں زمین کی وراثت (یعنی حکومت و فرمانروائی اور زمین کے وسائل پر تصرف) صرف صالحین کو ملا کرتی ہے اور انہی کو اللہ تعالیٰ اس نعمت سے نوازتا ہے۔ پھر اس قاعدۂ کلیہ سے وہ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ صالح اور غیر صالح کے فرق و امتیاز کا معیار یہی وراثت ِ زمین ہے، جس کو یہ وراثت ملے وہ صالح ہے اور جس کو نہ ملے وہ غیر صالح۔ اس کے بعد وہ آگے بڑھ کر اُن قوموں پر نگاہ ڈالتے ہیں جو دُنیا میں پہلےوارثِ زمین رہی ہیں اور آج اس وراثت کی مالک بنی ہوئی ہیں ۔ یہاں وہ دیکھتے ہیں کہ کافر، مشرک، دہریے، فاسق ، فاجر، سب یہ وراثت پہلے بھی پاتے رہے ہیں اور آج بھی پا رہے ہیں۔ جن قوموں میں وہ تمام اوصاف پائے گئے ہیں اور آج پائے جاتے ہیں جنہیں قرآن صاف الفاظ میں کفر، فسق ، فجور، معصیت اور بدی سے تعبیر کرتا ہے، وہ اس وراثت سے محروم نہیں ہوئیں بلکہ نوازی گئیں اور آج بھی نوازی گئیں اور آج بھی نوازی جا رہی ہیں ۔ فرعون و نمرود سے لے کر اس زمانے کے کمیونسٹ فرمانرواؤں تک کتنے ہی ہیں جو کھلم کھلا خدا کے منکر ، مخالف ، بلکہ مدِّ مقابل بنے ہیں اور پھر بھی وارثِ زمین ہوئے ہیں۔ اِس منظر کو دیکھ کر وہ یہ رائے قائم کرتے ہیں کہ قرآن کا بیان کر دہ قاعدۂ کلیہ تو غلط نہیں ہو سکتا، اب لامحالہ غلطی جو کچھ ہے وہ ”صالح“ کے مفہوم میں ہے جو اب تک مسلمان سمجھتے رہے ہیں۔ چنانچہ وہ صلاح کا ایک نیا تصوّر تلاش کرتے ہیں جس کے مطابق زمین کے وارث ہونے والے سب لوگ یکساں”صالح“ قرار پا سکیں ، قطع نظر اس سے کہ وہ ابو بکر صدیق اور عمر فاروق ہوں یا چنگیز اور ہلاکو۔ اس نئے تصوّر کی تلاش میں ڈارو ن کا نظریہ ٔ ارتقاء ان کی رہنمائی کرتا ہے اور وہ قرآن کے تصوّرِ ”اصلاح“ کوڈار دینی تصوّرِ ”صلاحیت“ (Fitness ) سے لے جا کر ملا دیتے ہیں۔ |