اس رکوع کو چھاپیں

سورة الانبیاء حاشیہ نمبر۸١

ذوالکفل کا لفظی ترجمہ ہے”صاحب ِ نصیب“، اور مراد ہے اخلاقی بزرگی اور ثواب ِ آخرت کے لحاظ سے صاحبِ نصیب، نہ کہ دنیوی فوائد و منافع کے لحاظ سے ۔ یہ ان بزرگ کا نام نہیں بلکہ لقب ہے۔ قران مجید میں دو جگہ ان کا ذکر آیا ہے  اور دونوں جگہ ان کو اسی لقب سے یاد کیا گیا ہے ۔ نام نہیں  لیا گیا۔
مفسرین کے اقوال اس معاملہ میں بہت مضطرب ہیں کہ یہ بزرگ کون ہیں، کس ملک اور قوم سے تعلق رکھتے ہیں، اور کس زمانے میں گزرے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ یہ حضرت زکریا کا دوسرانام ہے (حالانکہ یہ صریحًا غلط ہے ، کیونکہ ان کا ذکر ابھی آگے آرہا ہے)، کوئی کہتا ہے  یہ حضر ت الیاس ہیں، کوئی یوشع بن نون کا نام لیتا ہے، کوئی کہتا ہے  یہ الیسع ہیں، (حالانکہ یہ بھی غلط ہے ، سورۂ ص میں ان کا ذکر الگ کیا گیا ہے اور ذوالکفل کا الگ)، کوئی انہیں حضرت الیسع کا خلیفہ بتاتا ہے ، اور کسی کا قول ہے کہ یہ حضرت ایوب کے بیٹے تھے جو ان کے بعد نبی ہوئے اور ان کا اصلی نام بِشر تھا۔ آلوسی نے روح المعانی میں لکھا ہے کہ ”یہودیوں کا دعویٰ ہے کہ یہ حِز قیال (حِزقِی اِیل) نبی ہیں جو بنی اسرائیل کی اسیری (سن ۵۹۷ ق م) کے زمانے میں نبوت پر سرفراز ہوئے اور نہر خابُور کے کنارے پر ایک بستی میں فرائض نبوت انجام دیتے رہے“۔
ان مختلف اقوال کی موجودگی میں یقین و اعتماد کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ فی الواقع یہ کون سے نبی ہیں۔ موجودہ زمانے میں مفسرین نے اپنا میلان حِزقی ایل نبی کی طرف ظاہر کیا ہے ، لیکن ہمیں کوئی معقول دلیل ایسی نہیں ملی جس کی بنا پر یہ رائے قائم کی جاسکے۔ تاہم اگر اس کے لیے کوئی دلیل مل سکے تو یہ رائے قابلِ ترجیح ہو سکتی ہے، کیونکہ بائِیبل کے صحیفۂ حزقی ایل کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ فی الواقع وہ اس تعریف کے مستحق ہیں جو اس آیت میں کی گئی ہے ، یعنی صابر اور صالح ۔ وہ ان لوگوں میں سے تھے جو یروشلم کی آخری تباہی سے پہلے بخت نصر کے ہاتھوں گرفتار ہوچکے تھے۔ بخت نصر نے عراق میں اسرائیلی قیدیوں کی ایک نو آبادی دریائے  خابور کے کنارے قائم کر دی تھی جس کا نام تَل ابیِب تھا۔ اِسی مقام پر سن ۵۹۴ ق م میں حضرت حزقی ایل نبوت کے منصب پر سرفراز ہوئے ، جبکہ ان کی عمر ۳۰ سال تھی، اور مسلسل ۲۲ سال ایک طرف گرفتارِ بلا اسرائیلیوں کو اور دوسری طرف یروشلم کے غافل و سرشار باشندوں اور حکمرانوں کو چونکا نے کی خدمت انجام دیتے رہے۔ اس کارِ عظیم میں ان کے انہماک کا جو حال تھا اُس کا اندازہ اِس بات سے  کیا جا سکتا ہے کہ نبوت کے نویں سال اُن کی بیوی ، جنہیں وہ خود ”منظورِ نظر“ کہتے ہیں، انتقال کر جاتی ہیں، لوگ ان کی تعزیت کے لیے جمع ہوتے ہیں، اور یہ اپنا دُکھڑا چھوڑ کر اپنی مِلّت کو اُس عذاب سے ڈرانا شروع کر دیتے ہیں جو اس کے سر پر تُلا کھڑا تھا(باب ۲۴۔ آیات ۱۵ – ۲۷)۔ بائیبل کا صحیفۂ حزقی ایل  اُن صحیفوں میں سے ہے جنہیں پڑھ کر واقعی یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ الہامی کلام ہے۔