اس واقعے کا ذکر بائیبل میں نہیں ہے ، اور یہودی لٹریچر میں بھی ہمیں اس کا کوئی نشان نہیں ملا۔ مسلمان مفسرین نے اس کو جو تشریح کی ہے وہ یہ ہے کہ ایک شخص کے کھیت میں دوسرے شخص کی بکریاں رات کے وقت گھُس گئی تھیں۔ اُس نے حضرت داؤد کے ہاں ستغاثہ کیا۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ اُس کی بکریاں چھین کر اِسے دے دی جائیں۔ حضرت سلیمان نے اس سے اختلاف کیا اور یہ رائے دی کہ بکریاں اُن وقت تک کھیت والے پاس رہیں جب تک بکری والا اُس کے کھیت کو پھر سے تیار نہ کر دے۔ اسی کے متعلق اللہ تعالیٰ فرمارہا ہے کہ یہ فیصلہ ہم نے سلیمان ؑ کو سمجھایا تھا۔ مگر چونکہ مقدمے کی یہ تفصیل قرآن میں بیان نہیں ہوئی ہے اور نہ کسی حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی تصریح نقل ہوئی ہے ، اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس طرح کے مقدمے میں یہی ثابت شدہ اسلامی قانون ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حنفیہ، شافعیہ، مالکیہ اور دوسرے فقہا ئے اسلام کے درمیان اس امر میں اختلاف واقع ہوا ہے کہ اگر کسی کا کھیت دوسرے شخص کے جانور خراب کر دیں تو کوئی تاوان عائد ہوگا یا نہیں اور عائد ہوگا تو کس صورت میں ہوگا اور کس صورت میں نہیں ، نیز یہ کہ تاوان کی شکل کیا ہوگی۔ |