”اس کا پس منظر یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کا اثر جب پھیلنے لگا تو مکہ کے سرداروں نے آپس میں مشورہ کر کے یہ طے کیا کہ آپ کے مقابلے میں پروپیگنڈا کی ایک مہم شرو ع کی جائے اور ہر اس شخص کو ، جو مکہ میں زیارت کے لیے آئے آپ کے خلاف پہلے ہی سے اتنا بدگمان کر دیا جائے کہ وہ آپ کی بات سننے کے لیے آمادہ ہی نہ ہو۔ یہ مہم ویسے تو بارہ مہینے جاری رہتی تھی ، مگر خاص طور پر حج کے زمانے میں کثرت سے آدمی پھیلا دیے جاتے تھے جو تمام بیرونی زائرین کے خیموں میں پہنچ کر ان کو خبر دار کرتے تھے کہ یہاں ایسا ایسا ایک آدمی ہے ، اس سے ہوشیار رہنا۔ ان گفتگوؤں میں طرح طرح کی باتیں بنائی جاتی تھیں۔ کبھی کہا جاتا کہ یہ شخص جادوگر ہے ۔ کبھی کہا جاتا کہ ایک کلام اس نے خود گھڑ رکھا ہے، اور کہتا ہے کہ خدا کا کلام ہے۔ کبھی کہا جاتا کہ اجی وہ کلام کیا ہے ، دیوانوں کی بڑ اور پراگندہ خیالات کا پلندا ہے۔ کبھی کہا جاتا کہ شاعرانہ تخیلات اور تُک بندیاں ہیں جن کا نام اس نے کلامِ الہٰی رکھا ہے۔ مقصد یہ تھا کہ کسی نہ کسی طرح لوگوں کو بہکایا جائے۔ صداقت کا ان کے سامنے سرے سے کوئی سوال ہی نہ تھا کہ جم کر کوئی ایک قطعی اورجچی تُلی رائے ظاہر کرتے۔ لیکن اس جھوٹے پروپیگنڈے کا حاصل جو کچھ ہُوا وہ یہ تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام انہوں نے خود ملک کے گوشے گوشے میں پہنچا دیا۔ آپ کی جتنی شہرت مسلمانوں کی کوششوں سے سالہا سال میں بھی نہ ہو سکتی تھی وہ قریش کی اس مخالفانہ مہم سے تھوڑی مدّت ہی کے اندر ہو گئی۔ ہر شخص کے دل میں ایک سوال پیدا ہو گیا کہ آخر معلوم تو ہو وہ کون ایسا آدمی ہے جس کے خلاف یہ طوفان برپا ہے، اور بہت سے سوچنے والوں نے سوچا کہ اس شخص کی بات سُنی تو جائے۔ ہم کوئی بچے تو نہیں ہیں کہ خواہ مخواہ بہک جائیں گے۔ |