اس رکوع کو چھاپیں

سورة الانبیاء حاشیہ نمبر۷

”اس کا پس منظر یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کا اثر جب پھیلنے لگا تو مکہ کے سرداروں نے آپس میں مشورہ کر کے یہ طے کیا کہ آپ کے مقابلے میں پروپیگنڈا کی ایک مہم شرو ع  کی جائے اور ہر اس شخص کو ، جو مکہ میں زیارت کے لیے آئے آپ کے خلاف پہلے ہی سے اتنا بدگمان  کر دیا جائے کہ وہ آپ کی بات سننے کے لیے آمادہ  ہی نہ ہو۔ یہ مہم ویسے تو بارہ مہینے جاری رہتی تھی  ، مگر خاص طور پر حج کے زمانے میں کثرت سے آدمی پھیلا دیے جاتے تھے جو تمام بیرونی زائرین کے خیموں میں پہنچ کر ان کو خبر دار کرتے تھے کہ یہاں ایسا ایسا ایک آدمی ہے ، اس سے ہوشیار رہنا۔ ان گفتگوؤں میں طرح طرح کی باتیں بنائی جاتی تھیں۔ کبھی کہا جاتا کہ یہ شخص جادوگر ہے ۔ کبھی کہا جاتا کہ ایک کلام اس نے خود گھڑ  رکھا ہے، اور کہتا ہے کہ خدا کا کلام ہے۔ کبھی کہا جاتا کہ اجی وہ کلام کیا ہے ، دیوانوں کی بڑ اور پراگندہ خیالات کا پلندا ہے۔ کبھی کہا جاتا کہ شاعرانہ  تخیلات اور تُک بندیاں ہیں جن کا نام اس نے کلامِ الہٰی رکھا ہے۔ مقصد یہ تھا کہ کسی نہ کسی طرح لوگوں کو بہکایا جائے۔ صداقت کا ان کے سامنے سرے سے کوئی سوال ہی نہ تھا کہ جم کر کوئی ایک قطعی اورجچی تُلی رائے ظاہر کرتے۔ لیکن اس جھوٹے پروپیگنڈے کا حاصل جو کچھ ہُوا وہ یہ تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام انہوں نے خود ملک کے گوشے گوشے میں پہنچا دیا۔ آپ کی جتنی شہرت مسلمانوں کی کوششوں سے سالہا سال میں بھی نہ ہو سکتی تھی وہ قریش کی اس مخالفانہ مہم سے تھوڑی مدّت  ہی کے اندر ہو گئی۔ ہر شخص کے دل میں  ایک سوال پیدا ہو گیا کہ آخر معلوم تو ہو  وہ کون ایسا آدمی ہے جس کے خلاف یہ طوفان برپا ہے، اور بہت سے سوچنے والوں نے سوچا کہ اس شخص کی بات سُنی تو جائے۔ ہم کوئی بچے تو نہیں ہیں کہ خواہ مخواہ بہک جائیں گے۔
اس کی دلچسپ مثال طُفَیل بن عَمر و دَوسی کا قصہ ہے جسے  ابن اسحاق  نے خود ان کی روایت سے بڑی تفصیل کے ساتھ نقل کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں قبیلۂ دَوس کا ایک شاعر تھا ۔ کسی کام سے مکہ گیا۔ وہاں پہنچتے ہی قریش کی چند لوگوں نے مجھے گھیر لیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف خوب میرے کان بھرے یہاں تک کہ میں آپ سے سخت بدگمان ہو گیا اور میں نے یہ طے کر لیا کہ  آپ سے بچ کر ہی رہوں گا۔ دوسرے روز میں نے حرم میں حاضری دی تو آپ کعبہ کے پاس نماز پڑھ رہے تھے ۔ میرے کونوں میں چند جملے جو پڑے تو میں نے محسُوس کیا کہ یہ تو کوئی بڑا اچھا کلام ہے۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ میں شاعر ہوں، جوان مرد ہوں، عقل رکھتا ہوں، کوئی بچہ نہیں ہوں کہ صحیح اور غلط میں تمیز نہ کر سکوں۔ آخر کیوں نہ اس شخص سے مل کر معلوم کروں کہ یہ  کیا کہتا ہے۔ چنانچہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہو کر واپس چلے تو میں آپ کے پیچھے پیچھے ہو لیا اور آ پ کے مکان پر پہنچ کر میں نے عرض کیا کہ آپ کی قوم نے آپ کے متعلق مجھ سے یہ کچھ کہا تھا، اور میں آپ سے اس قدر بدگمان ہو گیا تھا کہ میں نے اپنے کانوں میں روئی ٹھونس لی تھی تاکہ آپ کی آواز نہ سننے پاؤں۔ لیکن ابھی  جو چند کلمے میں نے آپ کی زبان سے سُنے ہیں وہ مجھے کچھ اچھے معلوم ہوئے ہیں۔ آپ مجھے ذرا تفصیل سے بتائیے ، آپ کیا کہتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں مجھ کر قرآن کا ایک حصہ سُنایا اور میں اس سے  اس قدر متاثر ہوا کہ اسی وقت ایمان لے آیا۔ پھر واپس جا کر میں نے اپنے باپ اور بیوی کو مسلمان کیا۔ اس کے بعد اپنے قبیلے میں مسلسل اشاعتِ اسلام کرتا رہا، یہاں تک کہ غزوۂ خندق کے زمانے تک پہنچتے پہنچتے میرے قبیلے کے ستّر اسّی گھرانے مسلمان ہو گئے۔ (ابن ہشام، جلد ۲،  ص ۲۲ – ۲۴)
ایک اور روایت جو ابن اسحاق نے نقل کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سردارانِ قریش  اپنی محفلوں میں خود اس بات کا اعتراف کرتے تھے کہ جو باتیں وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بناتے ہیں وہ محض جھوٹ ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ ایک مجلس میں نَضر بن حارِث نے تقریر کی کہ ” تم لوگ محمد ؐ کامقابلہ جس طرح کر رہے ہو اس سے کام نہ چلے گا۔ وہ جب تمہارے درمیان نو عمر  جوان تھا تو تمہارا سب سے زیادہ خوش اطوار آدمی تھا۔ سب سے زیادہ سچا اور سب سے بڑ ھ کر امین سمجھا جاتا تھا۔ اب کہ اس کے بال سفید ہونے  کو آگئے ، تم کہتے ہو  یہ ساحر ہے، کاہن ہے، شاعر ہے، مجنون ہے۔ بخدا وہ ساحر نہیں ہے، ہم نے ساحروں کو دیکھا ہے اور ان کی جھاڑ پھونک سے ہم واقف ہیں۔ بخدا وہ کاہن بھی نہیں ہے ،  ہم نے کاہنوں کی تک بندیاں سُنی ہیں اور جیسی گول مول باتیں وہ کیا کرتے ہیں ان کا ہمیں علم ہے ۔ بخدا وہ شاعر بھی نہیں ہے ، شعر کی تمام اصناف سے ہم واقف ہیں اور اُس کا کلام ان میں سے کسی صنف میں نہیں آتا۔ بخدا وہ مجنون بھی نہیں ہے ، مجنون کی جو حالت ہوتی ہے اور جیسی بے تکی بڑ وہ ہانکتا ہے کیا اس سے ہم بے خبر ہیں؟ اے سردارانِ قریش ، کچھ اَور بات سوچو، جس چیز کا مقابلہ تمہیں درپیش ہے وہ اس سے زیادہ بڑی ہے کہ یہ باتیں بنا کر تم اسے شکست دے سکو“۔ اس  کے بعد اُس نے  یہ تجویز پیش کی کہ عجم سے رستم و اسفند یار کے قصّے لا کر پھیلا ئے جائیں تاکہ لوگ ان میں دلچسپی لینے لگیں اور وہ انہیں قرآن سے زیادہ عجیب معلوم ہوں۔ چنانچہ کچھ دنوں اس پر عمل کیا گیا  اور خود نَضر نے داستان گوئی شروع کر دی۔ (ابن ہشام ، جلد اوّل ، ص ۳۲۰ – ۳۲۱)