حضرت ابراہیمؑ کی زندگی کے اس اہم واقعے کا بائیبل میں کوئی ذکر نہیں ہے ۔ بلکہ ان کی زندگی کے عراقی دور کا کوئی واقعہ بھی اس کتاب میں جگہ نہیں پاسکا ہے ۔ نمرود سے ان کی مد بھیڑ، باپ اور قوم سے ان کی کشمکش ، بت پرستی کے خلاف ان کی جدو جہد ، آگ میں ڈالے جانے کا قصہ ، اور بالآخر ملک چھوڑ نے پر مجبور ہونا ، ان میں سے ہر چیز بائیبل کی کتاب ’’پیدائش‘‘ کے مصنف کی نگاہ میں ناقابل التفات تھی۔ وہ صرف ان کی ہجرت کا ذکر کرتا ہے ، مگر وہ بھی اس انداز سے کہ جیسے ایک خاندان تلاش معاش میں ایک ملک چھوڑ کر دوسرے ملک میں جا کر آباد ہو رہا ہے ۔ قرآن اور بائیبل کا اس سے بھی زیادہ دلچسپ اختلاف یہ ہے کہ قرآن کے بیان کی رو سے حضرت ابراہیمؑ کا مشرک باپ ان پر ظلم کرنے میں پیش پیش تھا، اور بائیبل کہتی ہے کہ ان کا باپ خود اپنے بیٹوں ، پوتوں اور بہوؤں کو لے کر حاران میں جا بسا (باب 11 ۔ آیات 27 تا 32 )۔ اس کے بعد یکایک خدا حضرت ابراہیم سے کہتا ہے کہ تو حاران کو چھوڑ کر کنعان میں جا کر بس جا اور ’’ میں تجھے ایک بڑی قوم بناؤں گا اور برکت دوں گا اور تیرا نام سر فراز کروں گا، سو تو باعث برکت ہو، جو تجھے مبارک کہیں ان کو میں برکت دوں گا اور جو تجھ پر لعنت کرے اس پر میں لعنت کروں گا اور زمین کے سب قبیلے تیرے وسیلے سے برکت پائیں گے ‘‘ (باب 12 ۔ آیت 1 ۔3)۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ اچانک حضرت ابراہیم پر یہ نظر عنایت کیوں ہو گئی ۔ |