اس رکوع کو چھاپیں

سورة الانبیاء حاشیہ نمبر٦۲

الفاظ صاف بتا رہے ہیں ، اور سیاق و سباق بھی اس مفہوم کی تائید کر رہا ہے کہ انہوں نے واقعی اپنے اس فیصلے پر عمل کیا ، اور جب آک کا الاؤ تیار کر کے اُنہوں نے حضرت ابراہیم ؑ کو اس میں پھینکا تب اللہ تعالیٰ نے آگ کو حکم دیا کہ وہ ابراہیم کے لیے ٹھنڈی ہو جائے اور بے ضرر بن کر رہ جائے۔ پس صریح طور پر یہ بھی اُن معجزات میں سے ایک ہے جو قرآن میں بیان کیے گئے ہیں ۔ اگر کوئی شخص ان معجزات کی اس لیے تاویلیں کرتا ہے کہ اس کے نزدیک خدا کے لیے بھی نظامِ عالم کے معمول() سے ہٹ کر کوئی غیر معمولی کام کرنا ممکن نہیں ہے ، تو آخر وہ خدا کو ماننے  ہی کی زحمت  کیوں اُٹھاتا ہے۔ اور اگر وہ اس طرح کی تاویلیں اس لیے کرتا ہے کہ جدید زمانے کے نام نہاد عقلیت پرست ایسی باتوں کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں ، تو ہم اس سے پوچھتے ہیں کہ بندۂ خدا، تیرے اوپر یہ فرض کس نے عائد کیا تھا کہ تو کسی نہ کسی طرح انہیں منوا کر ہی چھوڑے ؟ جو شخص قرآن کو، جیسا کہ وہ  ہے ، ماننے کے لیے تیار نہیں ہے ، اسے اس کے حال پر چھوڑ و۔ اسے منوانے کی خاطر قرآن کو اس کے خیالات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرنا، جبکہ قرآن کے الفاظ قدم قدم پر اِس ڈھلائی کی مزاحمت کر رہے ہوں، آخر کس قسم کی تبلیغ ہے اور کون معقول آدمی اسے جائز سمجھ سکتا ہے۔ (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ عنکبوت ، حاشیہ نمبر ۳۹)۔