اس رکوع کو چھاپیں

سورة الانبیاء حاشیہ نمبر٦١

اصل میں  نُکِسُوْ ا عَلیٰ رُءُ وْ سِھِمْ (اوندھا دیے گئے اپنے سروں کے بل) فرمایا گیا ہے۔ بعض لوگوں نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ انہوں نے خجالت کے مارے سر جھکا لیے۔ لیکن موقع و محل اور اسلوبِ بیان اس معنی کو قبول کرنے سے انکار کرتا ہے۔ صحیح مطلب ، جو سلسلہ ٔ کلام  اور اندازِ کلام پر نظر کرنے سے صاف سمجھ میں آجاتا ہے ، یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ کا جواب سنتے ہی پہلے تو انہوں نے اپنے دلوں  میں سوچا کہ واقعی ظالم تو تم خود ہو ، کیسے بے بس  اور بے اختیار معبودوں کو خدا بنائے بیٹھے ہو جو اپنی زبان سے یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ ان پر کیا بیتی اور کون انہیں مار کر رکھ گیا، آخر یہ ہماری کیا مدد کریں گے جب کہ خود اپنے آپ کو بھی نہیں بچا سکتے۔ لیکن اس کے بعد فوراً ہی ان پر ضد  اور جہالت سوار ہو گئی اور ، جیسا کہ ضد کا خاصہ ہے ، اس کے سوار ہوتے ہی ان کی عقل اوندھ گئی ۔ دماغ سیدھا  سوچتے سوچتے یکایک اُلٹا سوچنے لگا۔