”پھنسے جاتے ہو“ بھی ترجمہ ہو سکتا ہے ، اور دونوں ہی مطلب صحیح ہیں۔ سرگوشیاں کفارِ مکہ کہ وہ بڑے بڑے سردار آپس میں بیٹھ بیٹھ کر کیا کرتے تھے جن کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کا مقابلہ کر نے کی بڑی فکر لاحق تھی۔ وہ کہتے تھے کہ یہ شخص بہر حال نبی تو ہو نہیں سکتا ، کیونکہ ہم ہی جیسا انسان ہے، کھاتا ہے، پیتا ہے، بازاروں میں چلتا پھرتتا ہے ، بیوی بچے رکھتا ہے۔ آخر اِس میں وہ نِرالی بات کیا ہے جو اس کو ہم سے ممتاز کرتی ہون اور ہماری بہ نسبت اِس کو خدا سے ایک غیر معمولی نعلق کا مستحق بناتی ہو؟ البتہ اس شخص کی باتوں میں اور اس کی شخصیت میں ایک جادو ہے کہ جو اس کی بات کان لگا کر سنتا ہے اور اس کے قریب جاتا ہے وہ اس کا گرویدہ ہو جاتا ہے۔ اس لیے اگر اپنی خیر چاہتے ہو تو نہ اس کی سنو اور نہ اس سے میل جو ل رکھو ، کیونکہ اس کی باتیں سننا اور اس کے قریب جانا گویا آنکھوں دیکھتے جادو کے پھندے میں پھنسنا ہے۔ |