اس رکوع کو چھاپیں

سورة الانبیاء حاشیہ نمبر۴۵

یہ مضمون اس سے پہلے سُورۂ رعد آیت ۴۱ میں گزر چکا ہے اور وہاں ہم اس کی تشریح بھی کر چکے ہیں (ملاحظہ ہو حاشیہ نمبر ۶۰) ۔ یہاں اس سیاق و سباق میں یہ ایک اور معنی بھی دے رہا ہے۔ وہ یہ کہ زمین میں ہر طرف ایک غالب طاقت کی کارفرمائی کے  یہ آثار نظر آتے ہیں کہ اچانک کبھی قحط کی شکل میں ، کبھی وبا کی شکل میں ، کبھی سیلاب کی شکل میں ، کبھی زلزلے کی شکل میں ، کبھی سردی یا گرمی کی شکل میں، اور کبھی کسی اور شکل میں کوئی بلا ایسی  آجاتی ہے جو انسان کے سب کیے دھرے پر پانی پھیر دیتی ہے۔ ہزاروں لاکھوں آدمی مر جاتے ہیں۔ بستیاں تباہ ہو جاتی ہیں۔ لہلہاتی کھیتیاں غارت ہو جاتی ہیں۔ پیداوار گھٹ جاتی ہے ۔ تجارتوں میں کساد بازاری آنے لگتی ہے۔ غرض انسان کے وسائل زندگی میں کبھی کسی طرف سے کمی واقع ہو جاتی ہے اور کبھی کسی طرف سے۔ اور انسان اپنا سارا زور لگا کر بھی ان نقصانات کو نہیں روک سکتا۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد ۴، السجدہ، حاشیہ نمبر ۳۳)۔