اس رکوع کو چھاپیں

سورة الانبیاء حاشیہ نمبر۲۲

یہ استدلال سادہ بھی ہے اور بہت گہرا بھی ۔ سادہ سی بات ، جس کو ایک بدوی ، ایک دیہاتی، ایک موٹی  سی سمجھ کا آدمی بھی بآسانی سمجھ سکتاہے ، یہ ہے کہ ایک معمولی گھر کا نظام بھی چار دن بخیریت نہیں چل سکتا اگر اس کے دو صاحبِ خانہ ہوں۔ اور گہری بات یہ ہے کہ کائنات کا پورا نظام، زمین کی تہوں  سے لے کر بعید ترین سیاروں تک، ایک ہمہ گیر قانون پر چل رہا ہے۔  یہ ایک لمحہ کے لیے بھی قائم نہیں رہ سکتا اگر اس کی بے شمار مختلف قوتوں اور بے حد و حساب چیزوں کے درمیان تناسب اور توازن اور ہم آہنگی اور تعاون نہ ہو۔ اور یہ سب کچھ اس کے بغیر ممکن نہیں ہے کہ کوئی اٹل اور غالب و قاہر ضابطہ اِن بے شمار اشیاء  اور قوتوں کو پوری مناسبت کے ساتھ باہم تعاون کرتے رہنے پر مجبور کر رہا ہو۔ اب یہ کس طرح تصوّر کیا جا سکتا ہے کہ بہت سے مطلق العنان فرمانرواؤں کی حکومت میں ایک ضابطہ اس باقاعدگی کے ساتھ چل سکے؟ نظم کا وجود خود ہی ناظم کی وحدت کو مستلزم ہے۔ قانون اور ضابطہ کی ہمہ گیری آپ ہی اس بات پر شاہد ہے کہ اختیارات ایک ہی حاکمیت میں مرکوز ہیں اور وہ حاکمیت مختلف حاکموں میں بٹی ہوئی نہیں ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو، تفہیم القرآن ، جلد دوم، بنی اسرائیل ، حاشیہ نمبر ۴۷۔ جلد سوم، المومنون، حاشیہ نمبر ۸۵)۔