اس رکوع کو چھاپیں

سورة الانبیاء حاشیہ نمبر۲١

اصل میں لفظ ”یُنشرون“ استعمال ہواہے جو ”اِنشار“ سے مشتق ہے۔ اِنشار کے معنی ہیں بے جان پڑی ہوئی چیز کو اُٹھا کھڑا کرنا۔ اگرچہ اس لفظ کو قرآن مجید میں بالعموم زندگی بعدِ موت کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ لیکن اصطلاحی مفہوم سے قطع نظر، اصل لغوی معنی کے اعتبار سے یہ لفظ بے جان مادّے میں زندگی  پھونک دینے کے لیے مستعمل ہوتا ہے۔ اور موقع  و محل کو دیکھتے ہوئے ہم سمجھتے ہیں کہ یہ لفظ یہاں اسی مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جن ہستیوں کو انہوں نے خدا قرار دے رکھا ہے اور اپنا معبود بنایا ہے ، کیا ان میں کوئی ایسا ہے جو مادّۂ غیر ذی حیات میں زندگی پیدا کرتا ہو؟ اگر ایک اللہ کے سوا کسی میں یہ طاقت نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔ اور مشرکینِ عرب خود  مانتے تھے کہ کسی میں یہ طاقت نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔ تو پھر وہ اُن  کو خدا اور معبود کس لیے مان رہے ہیں؟