اس رکوع کو چھاپیں

سورة الانبیاء حاشیہ نمبر١۵

یہ تبصرہ ہے اُن کے اُس پورے نظریۂ حیات پر جس کی وجہ سے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر توجہ نہ کرتے تھے۔ ان کا خیال یہ تھا کہ انسان دنیا میں بس یونہی آزاد چھوڑ دیا گیا ہے ۔ جو کچھ چاہے کرے اور جس طرح چاہے جیے، کوئی باز پرس اس سے نہیں ہونی ہے۔ کسی کو اسے حساب نہیں دینا ہے۔ چند روز کی بھلی بُری زندگی گزار کر سب کو بس یونہی فنا ہو جانا ہے۔ کوئی دوسری زندگی نہیں ہے جس میں بھلائی کی جزا اور بُرائی کی سزا ہو۔ یہ خیال در حقیقت اِس بات کا ہم معنی  تھا کہ کائنات کا یہ سارا نظام محض کسی کھلنڈر ے کا کھیل ہے جس کا کوئی سنجیدہ مقصد نہیں ہے۔ اور یہی خیال دعوتِ پیغمبر سے ان کی بے اعتنائی کا  اصل سبب  تھا۔