اس رکوع کو چھاپیں

سورة طٰہٰ حاشیہ نمبر۹۴

یعنی اُس نے بعد میں اس حکم کے ساتھ جو معاملہ کیا وہ استکبار اور قصدی و ارادی  سرکشی  کی بنا پر نہ تھا ، بلکہ غفلت اور بھُول میں پڑجانے اور عزم وارادے کی کمزوری میں مبتلا ہونے کی وجہ سے تھا۔ اس نے حکم کی خلاف ورزی کچھ اس خیال اور نیت کے ساتھ نہیں کی تھی کہ میں خدا کی کیا پرو ا  کرتا ہوں ، اس کا حکم ہے تو ہوا کرے ، جو کچھ میرا جی چاہے گا کروں گا، خدا کون ہوتا ہے کہ میرے معاملات میں دخل دے۔ اِس کےبجائے اس کی نافرمانی کا سبب یہ تھا کہ اس نے ہمارا حکم یاد رکھنے کی کوشش نہ کی ، بھُول گیا کہ ہم نے اسے کیا سمجھایا  تھا، اور اس کے ارادے میں اتنی مضبوطی نہ تھی کہ جب شیطان اسے بہکانے آیا  اُس وقت وہ ہماری پیشگی تنبیہ اور نصیحت و فہمائش کو (جس کا ذکر ابھی آگے آتا ہے)  یاد کرتا اور اس کے دیے ہوئے لالچ کا سختی کے ساتھ مقابلہ کر تا۔
بعض لوگوں نے ”اُس میں عز م نہ پایا“ کا مطلب یہ لیا ہے کہ ” ہم نے اس میں نافرمانی کا عزم نہ پایا“ یعنی اُس نے جو کچھ کیا بھُولے سے کیا، نافرمانی کے عزم کی بنا پر نہیں کیا ۔ لیکن یہ خواہ مخواہ کا تکلف ہے۔ یہ بات اگر کہنی ہوتی تو   لَمْ نَجِدْ لَہٗ عَزْمًا عَلَی الْعِصْیَانِ  کہا جاتا نہ کہ محض   لَمْ نَجِدْ لَہٗ عَزْمًا ۔ آیت کے الفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ فقدان عزم سے مراد اطاعتِ حکم کے عزم کا فقدان ہے، نہ کہ نافرمانی کے عزم کا فقدان۔ علاوہ بریں اگر موقع و محل اور سیاق و سباق کی مناسبت کو دیکھا جائے تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ آدم علیہ السّلام کی پوزیشن صاف کرنے کے لیے یہ قصّہ بیان  نہیں کر رہا ہے، بلکہ یہ بتانا چاہتا ہے کہ وہ بشری کمزوری کیا تھی جس کا صدور ان سے ہوا اور جس کی بدولت صرف وہی نہیں بلکہ ان کی اولاد بھی اللہ تعالیٰ کی پیشگی تنبیہات کے باوجود اپنے دشمن کے پھندے میں پھنسی اور پھنستی رہی ہے۔ مزید براں، جو شخص بھی خالی الذہن ہو کر اس آیت کو پڑھے گا اس کے ذہن میں پہلا مفہوم یہی آئے گاکہ ”ہم نے اس میں اطاعت ِ امر کا عزم، یا مضبوط ارادہ نہ پایا“۔ دوسرا مفہوم اس کے ذہن میں اُس وقت تک نہیں آسکتا جب تک وہ آدم علیہ السّلام کی طرف معصیت کی نسبت کو نا مناسب سمجھ کر آیت کے کسی اور معنی کی تلاش شروع نہ کر دے۔ یہی رائے علامہ آلوسی نے بھی اس موقع پر اپنی تفسیر میں ظاہر فرمائی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ   لکن لا یخفٰی علیک ان ھٰذا التفسیر غیر متبادرٍ ولا کثیر المناسبۃ للمقامِ، ”مگر تم سے یہ بات پوشیدہ نہ ہوگی کہ یہ تفسیر آیت کے الفاظ سُن کر فوراً ذہن میں نہیں آتی  اور نہ موقع محل کے ساتھ کچھ زیادہ مناسبت رکھتی ہے “۔ (ملاحظہ ہو روح المعانی۔ جلد ۱۶۔ صفحہ ۲۴۳)۔