اس رکوع کو چھاپیں

سورة طٰہٰ حاشیہ نمبر۹

یہاں نماز کی اصلی غرض پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ آدمی خدا سے غافل نہ ہو جائے، دنیا کے دھوکا دینے والے مظاہر اُس کو اِس حقیقت سے بے فکر نہ کر دیں کہ میں کسی کا بندہ ہوں، آزاد خود مختار نہیں ہوں۔ اس فکر کو تازہ رکھنے اور خدا سے آدمی کا تعلق جوڑے رکھنے کا سب سے بڑا ذریعہ نماز ہے جو ہر روز کئی بار آدمی کو دنیا کے ہنگاموں سے ہٹا کر خدا کی طرف لے جاتی ہے۔
بعض لوگوں نے اس کا یہ مطلب بھی لیا ہے کہ نماز قائم کرتا کہ میں تجھے  یاد کروں، جیسا کہ دوسری جگہ  فرمایا   فَا ذْ کُرُوْ نِیْ اَذْکُرْکُمْ ”مجھے یاد کرو ، میں تمہیں یاد  رکھوں گا“۔
ضمنًا اس آیت سے یہ مسئلہ بھی نکلتا ہے کہ جس شخص کو بھُول لاحق ہو جائے اسے جب بھی یاد آئے نماز ادا کر لینی چاہیے۔ حدیث میں حضرت اَنَس سے مروی ہے کہ حضور نے فرمایا من نسی صَلاۃ فلیصلّھا اذ اذکر ھا  لا کفارۃ لھا الا ذٰلک، ”جو شخص کسی وقت کی نماز بھول گیا ہو اسے چاہیے کہ جب یاد آئے ادا کرلے ، اِس کے سوا اس کا کوئی کفارہ نہیں ہے“(بخاری ، مسلم ، احمد)۔ اسی معنی میں ایک روایت حضرت ابو ہریرہ ؓ سے بھی مروی ہے جسے مسلم، ابوداؤد اور نَسائی وغیرہ نے لیا ہے۔ اور ابو قَتَادَہ ؓ کی روایت ہے کہ حضور سے پوچھا گیا کہ اگر ہم نماز کے وقت سوگئے ہوں تو کیا کریں؟ آپؐ نے فرمایا ”نیند میں کچھ قصور نہیں ، قصور تو جاگنے کی حالت میں ہے ۔ پس جب تم میں سے کوئی شخص بھول جائے یا سو جائے تو جب بیدار ہو یا جب یاد آئے ، نماز پڑھ لے“ (ترمذی، نسائی ، ابوداؤد)۔