اس رکوع کو چھاپیں

سورة طٰہٰ حاشیہ نمبر۸٦

”یہاں وجہ بتائی گئی ہے کہ شفاعت پر یہ پابندی کیوں ہے۔ فرشتے ہوں  یا انبیاء یا اولیاء ، کسی کو بھی یہ معلوم نہیں ہے  اور نہیں ہو سکتا کہ کس کا ریکارڈ کیسا ہے ، کون دنیا میں کیا کرتا  رہا ہے، اور اللہ کی عدالت میں کس سیرت و کردار اور کیسی کیسی ذمہ داریوں کے بار لے کر آیا ہے۔ اس کے برعکس اللہ کو ہر ایک کے پچھلے کارناموں اور کرتُوتوں کا بھی علم ہے اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اب اس کا موقف کیا ہے ۔ نیک ہے تو کیسا نیک ہے اور مجرم ہے تو کس درجے کا مجرم ہے۔ معافی کے قابل ہے یا نہیں۔ پوری سزا کا مستحق ہے یا تخفیف اور رعایت بھی اس کے ساتھ کی جا سکتی ہے۔ ایسی حالت میں یہ کیونکر صحیح ہو سکتا ہے کہ ملائکہ اور انبیاء اور صلحاء کو سفارش کی کھلی چھٹی دے دی جائے اور ہر ایک جس کے حق میں جو سفارش چاہے کر دے۔ ایک معمولی افسر اپنے ذرا سے محکمے میں اگر اپنے  ہر دوست یا عزیز کی سفارشیں سننے لگے تو چار دن میں سارے محکمے کا ستیا ناس کر کے رکھ دے گا۔ پھر بھلا زمین و آسمان کے فرمانروا سے یہ کیسے توقع کی جا سکتی ہے  کہ اس کے ہاں سفارشوں کا بازار گرم ہو گا، اور ہر بزرگ جا جا کر جس کو چاہیں گے بخشوا  لائیں گے ، درانحالیکہ ان میں سے کسی بزرگ کو بھی یہ معلوم نہیں ہے کہ جن لوگوں کی سفارش وہ کر رہے ہیں ان کے نامۂ اعمال کیسے ہیں۔ دنیا میں جو افسر کچھ بھی احساس ذمہ داری رکھتا ہے اس کی روش یہ ہوتی ہے کہ اگر اس کا کوئی دوست اس کے کسی قصور وار ماتحت کی سفارش لے کر جاتا ہے تو وہ اس سے کہتا ہے کہ آپ کو خبر نہیں ہے کہ یہ شخص کتنا کام چور، نافرض شناس ، رشوت خوار اور خلق خدا کو تنگ کرنے والا ہے، میں اس کے کرتُوتوں سے واقف ہوں، اس لیے آپ براہِ کرم مجھ سے اس کی سفارش نہ فرمائیں۔ اسی چھوٹی سی مثال پر قیاس کر کے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس آیت میں شفاعت کے متعلق جو قاعدہ بیان کیا گیا ہے وہ کس قدر صحیح ، معقول اور مبنی بر انصاف ہے۔ خدا کے ہاں شفاعت کا دروازہ بند نہ ہوگا۔  نیک بندے ، جو دنیا میں خلقِ خدا کے ساتھ ہمدردی کا برتاؤ کرنے کے عادی تھے، انہیں آخرت میں بھی ہمدردی کا حق ادا کرنے کا موقع دیاجائے گا۔ لیکن وہ سفارش کرنے سے پہلے اجازت طلب کر یں گے، اور جس کے حق میں اللہ تعالیٰ انہیں بولنے کی اجازت دے گا صرف اُسی کے حق میں وہ سفارش کر سکیں گے ۔ پھر سفارش کے لیے بھی شرط یہ ہو گی کہ  وہ مناسب اور مبنی بر حق ہو، جیسا کہ وَقَالَ  صَوَابًا (اور بات ٹھیک کہے ) کا ارشاد ربّانی صاف بتا رہا ہے۔ بَونگی سفارشیں کرنے کی وہاں اجازت نہ ہو گی کہ ایک شخص دنیا میں سینکڑوں ، ہزاروں بندگانِ خدا کے حقوق مار آیا ہو اور کوئی بزرگ اُٹھ کر سفارش کر دیں کہ حضور اسے انعام سے سرفراز فرمائیں یہ میرا خاص آدمی ہے۔