اس رکوع کو چھاپیں

سورة طٰہٰ حاشیہ نمبر۸۵

اس آیت کے  دو ترجمے ہو سکتے ہیں۔ ایک وہ جو متن میں کیا گیا ہے ۔ دوسرا یہ کہ” اُس روز شفاعت کا ر گر نہ ہوگی اِلَّا یہ کہ کسی کے حق میں رحمان اس کی اجازت دے اور اس کے لیے بات سننے پر راضی ہو“۔ الفاظ ایسے جامع ہیں جو دونوں مفہوموں پر حاوی ہیں۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ قیامت کے روز کسی کو دم مارنے تک کی جرأت نہ ہو گی کجا کہ کوئی سفارش کے لیے بطور خود زبان کھول سکے۔ سفارش وہی کر سکے گا جسے اللہ تعالیٰ بولنے کی اجازت دے، اور اسی کے حق میں کر سکے گا جس کے لیے بارگاہِ الہٰی سے سفارش کرنے کی اجازت مل جائے گی۔ یہ دونوں باتیں قرآن میں متعدد مقامات پر کھول کر بتا دی گئی ہیں۔ ایک طرف فرمایا  مَنْ ذَ ا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗ اِلَّا بَاِذْنِہٖ،” کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے حضور سفارش کر سکے“ (بقرہ – آیت ۲۵۵)۔ اور یَوْمَ یَقُوْمُ الرُّوْحُ وَالْمَلٰٓئِکَۃُ صَفًّا ، لَّا یَتَکَلَّمُوْنَ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَہْ الرَّ حْمٰنُ وَقَالَ صَوَابًا، ”وہ دن جبکہ روح اور ملائکہ سب صف بستہ کھڑے ہوں گے، ذرا بات نہ کریں گے، صرف وہی بول سکے گا جسے رحمان اجازت دے اور جو ٹھیک بات کہے“ (النبا – آیت۳۸)۔ دوسری طرف ارشاد ہوا   وَلَا یَشْفَعُوْنَ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰی وَھُمْ مِّنْ خَشْیَتِہٖ مُشْفِقُوْنَ،” اور وہ کسی کی سفارش نہیں کرتے بجز اس شخص کے جس کے حق میں سفارش سننے پر (رحمان) راضی ہو،  اور وہ اُس کے خوف سے ڈرے ڈرے رہتے ہیں“( الانبیاء – آیت ۲۸)۔ اور کَمْ مِّنْ مَّلَکٍ فِی السَّمٰوٰ تِ لَا تُغْنِیْ شَفَا عَتُھُمْ شَیْئًا اِلَّا مِنْم ”بَعْدِ اَنْ یَّاْ ذَنَ اللّٰہُ لِمَنْ یَّشَآ ءُ وَیَرْضٰی، ”کتنے  ہی فرشتے آسمانوں میں ہیں جن کی سفارش کچھ بھی مفید نہیں ہو سکتی بجز اس صورت کے  کہ  اللہ  سے اجازت لینے کے بعد کی جائے اور ایسے شخص کے حق میں کی جائے جس کے لیے وہ سفارش سننا چاہے اور پسند کرے“ (النجم ، آیت ۲۶)۔